یہاں پہ جو ہے وہ مذہب شکار ہے ہاں ہے
یہاں پہ جو ہے وہ مذہب شکار ہے ہاں ہے
خدا دلوں پہ دماغوں پہ بار ہے ہاں ہے
تمام مفتی و واعظ خدا کو بیچتے ہیں
تو کیا خدا بھی کوئی کاروبار ہے ہاں ہے
ہر ایک چیز میں تم عیب دیکھتے ہو نہیں
تمہارا لہجہ شکایت گزار ہے ہاں ہے
سبھی کو خبط خود آرائی و نمائش ہے
سبھی کے ذہن پہ عورت سوار ہے ہاں ہے
جو چند لوگ مہذب ہوئے ہیں کہتے ہیں
کہ مسخروں میں تمہارا شمار ہے ہاں ہے
تم آج بھی اسی حسرت سے مجھ سے ملتی ہو
تو کیا ابھی بھی مرا انتظار ہے ہاں ہے