سلگتی نیند کے گرداب سے نکل آیا

سلگتی نیند کے گرداب سے نکل آیا
میں آج یعنی کسی خواب سے نکل آیا


وہاں بھی کوئی نہیں تھا خراب حالوں کا
میں ہو کے منبر و محراب سے نکل آیا


عطائے شان کریمی عجیب ہوتی ہے
کنارا خود ہی تہہ آب سے نکل آیا


ہزار صدیوں پہ بھاری تھا ایک لمحۂ لمس
وہ رات جب حد آداب سے نکل آیا


وہ دیکھ موت کے ساحل کی ریت چمکی ہے
میں زندگی ترے سیلاب سے نکل آیا


جسے مثال میں سنتے رہے ہیں ہم انجمؔ
وہ پر بھی بازوئے سرخاب سے نکل آیا