سچ کی آواز کا سولی پہ بھی رد ہے حد ہے
سچ کی آواز کا سولی پہ بھی رد ہے حد ہے
تم اگر جھوٹ بھی بولو تو سند ہے حد ہے
تم تو سورج تھے پہ حیرت ہے مجھے وقت زوال
اک دیے سے تمہیں اس درجہ حسد ہے حد ہے
میں کہ مسجود ملائک تھا کبھی داور حشر
میرے اعمال پر ان سے ہی مدد ہے حد ہے
ہم تو بربادی کا سامان کئے بیٹھے تھے
مسلک عشق و وفا میں یہاں حد ہے حد ہے
جن چراغوں کی مدد سے میں فروزاں ہوا ہوں
روشنی سے مری آج ان کو ہی کد ہے حد ہے
انجمؔ اس شہر کو دعویٰ تھا زباں دانی کا
شاعر اس شہر میں تو ایک عدد ہے حد ہے