دستک ہوئی تو سر پہ دوپٹا سنبھل گیا

دستک ہوئی تو سر پہ دوپٹا سنبھل گیا
چھوٹا سا اک چراغ مرے دل میں جل گیا


جاتے ہوئے رکا ہی نہیں ایک پل بھی وہ
سارے ستارے پاؤں کے نیچے کچل گیا


تانبے کی ٹکڑیاں سی بکھرتی چلی گئیں
پھر دیکھتے ہی دیکھتے سورج پگھل گیا


بارش کی بوند بوند کو ترسا ہوا تھا شہر
آنچل ہوا کا تھام کے بادل نکل گیا


روٹی توے پہ سہمی ہوئی دیکھتی رہی
چولہا بھڑک اٹھا تھا مرا ہاتھ جل گیا


حیرت ہنوز ٹوٹے ہوئے آئنے میں تھی
مجھ پر تری کمان سے کیوں تیر چل گیا


بیتے ہوئے دنوں کا دھواں پھیلتا رہا
یوں ہی کنار چشم جو آنسو پھسل گیا