عجب ہوا کہ مجھے موت سے حیات ہوئی

عجب ہوا کہ مجھے موت سے حیات ہوئی
جب اس کی ذات میں تحلیل میری ذات ہوئی


ہر ایک لفظ ستارے میں ہو گیا تبدیل
تمام رات مری آسماں سے بات ہوئی


سجا دئے تھے منڈیروں پہ بیقرار چراغ
درون رات مجھے اور ایک رات ہوئی


ہری رتوں میں ہمیں شاخ شاخ دیکھنا تم
وہ پھول پھول کھلا میں بھی پات پات ہوئی


میں سانپ سیڑھی سے پاتال تک گرائی گئی
میں جان ہی نہ سکی جیت تھی کہ مات ہوئی


طویل اڑان نے معدوم کر دیا ہے وجود
میں بے ثبات تھی کچھ اور بے ثبات ہوئی


تمام ہونے نہ ہونے کی ساعتوں میں سحرؔ
وہ ایک شکل مجھے پوری کائنات ہوئی