حرف کے پھول چن کے لاتے تھے

حرف کے پھول چن کے لاتے تھے
روز تازہ غزل سناتے تھے


درد کی صورتوں میں اک گھر تھا
اس کی ویرانیاں سجاتے تھے


زندگی ڈایری میں لکھتے تھے
اور پھر ڈایری جلاتے تھے


اک شجر تھا جو اس کے جیسا تھا
اس کو ہم حال دل سناتے تھے


اب اندھیرے میں بیٹھے رہتے ہیں
پہلے اکثر دیے جلاتے تھے


اس کے لہجے کی زد میں آتے ہی
کانچ کے خواب ٹوٹ جاتے تھے


زندگی کی گلی میں بھی کچھ لوگ
موت کا گیت گنگناتے تھے


اپنے غم سے کشید کر کے ہنسی
خود ہی اپنا فریب کھاتے تھے


بے نیازی بھی ایک نعمت تھی
یاد کرتے ہی بھول جاتے تھے


آنسوؤں میں بھگو کے رکھتے تھے
پھول تو پھر بھی سوکھ جاتے تھے


زندگی سے کبھی ملی ہو سحرؔ
کچھ بلاوے تو تم کو آتے تھے