دن ہوا اور روشنی ہی نہیں
دن ہوا اور روشنی ہی نہیں
چاند نکلا تو چاندنی ہی نہیں
بیچ جنگل میں راہ بھولی تھی
لوٹ کر گھر کبھی گئی ہی نہیں
حال اور ماضی ایک جیسے ہیں
وقت سے میری دوستی ہی نہیں
میری آنکھوں کو لے اڑا بادل
ایسی بارش ہوئی تھمی ہی نہیں
بے سہارا تھکن ہے اور میں ہوں
منزل عشق تک چلی ہی نہیں
کچھ ستاروں نے خودکشی کر لی
کچھ ستاروں میں سانس تھی ہی نہیں
یہ سحر آئنے میں کون ہے اب
میری صورت کبھی ملی ہی نہیں