شہناز نبی کی نظم

    گلشن نا آفریدہ

    بدن کے جھروکے میں جتنی نگاہیں لگی ہیں مری ہیں کوئی اور کب سوچتا ہے کہ غم خانۂ میرؔ کے اس طرف ایک ہنستا مہکتا باغیچہ بھی ہے کتنی ان چھوئی کلیاں جواں تتلیاں رس بھری جھومتی ڈالیاں سوندھی مٹی کی ہم جنس خوشبو لبالب سی اک باؤلی جانے کیا کچھ مگر وہ جھروکہ کہ جس کا مرے دل سے اک واسطہ ...

    مزید پڑھیے

    مرد---عورت

    کب کہاں سے چلی تھی پتہ نہیں جنت نے ٹھکرایا کہ آدم نے پکارا چاروں اور گھنا جنگل ہر شاخ ہاتھ بڑھاتے ہی خود میں سمٹ جاتی تھی جانے کب بے ستر ہوئی کس نے شرم گاہ کی لاج رکھی پاؤں کے نیچے ان گنت راہیں بے حساب نشیب و فراز دونوں طرف سوال و جواب کی اٹوٹ خواہشیں الزامات کے تبادلے کی ...

    مزید پڑھیے

    زمیں تھم گئی ہے

    بدن میں نہ پہلی سی حدت نہ دھڑکن ہے دل میں جئے جانے کی ایک بے شرم عادت ادھر کچھ دنوں سے نگاہوں میں اپنی سبک کر رہی ہے ہزاروں بکھیڑوں میں بھی جانے کب بے ستر آ کھڑی ہوتی ہے یہ حقیقت تو کیا میں بھی ان ان گنت لوگوں میں ہوں جنہیں زندگی اک سزا ہے کوئی بد دعا ہے مگر جی رہے ہیں ابھی کچھ دھواں ...

    مزید پڑھیے

    خواہش

    بہت دنوں سے پھول کی یہ خواہش تھی کہ اڑ پائے لطف رہے گا جب وہ اپنی خوشی سے آئے جائے اسی پھول نے آخر اک دن دیا شاخ کو دھوکا تیلی بن ہی گیا وہ جب پھر اس کو کس نے روکا ہر دن بیٹھ کے سوچا کرتا دیپک کا اجیالا میں پرواز جو کرتا تو خوشیاں ہو جاتیں دوبالا اسی سوچ میں آخر اک دن پنکھ اس نے بھی ...

    مزید پڑھیے

    ناستلجیا

    کئی گرہیں کہ جن کو کھولنے کی ضد میں اپنے ناخنوں کو ہم گنوا بیٹھے کئی باتیں کہ جن کو باندھنے کی کوششوں میں موچ آئی تھی کلائی میں کئی چہرے کہ جن کے خال و خط کو ہم مٹانے کے جتن میں دھوتے رہتے تھے برابر اپنے لوح چشم اب بھی گھیر لیتے ہیں گزرتے وقت نے ہر تجربے کو کہہ کے بچکانہ ہمیں قائل ...

    مزید پڑھیے

    مینوپاز

    ابل ابل کر دودھ کے سارے تال تلیاں سوکھ گئے ہمک ہمک کر کندن سی لوری کے بول بھی روٹھ گئے پینگیں لیتے لیتے خالی بانہیں تھک کر جھول گئیں کجلوٹی میں سارا کاجل جانے کب کا پگھل گیا کس میلے میں ڈھونڈوں اس کو ملا نہیں اور بچھڑ گیا

    مزید پڑھیے

    کولاژ

    ساری چلمنیں تیلیوں کی شکل میں بکھر چکی ہیں کمزور دھاگے کہانیاں بننے سے عاری مومی شمعیں پگھل پگھل کر زمیں بوس پروانے راستہ بھٹک چکے ہیں بے رنگ اوس کے دھبے جا بجا آنگنوں میں پھیلے ہیں سورج نے آنکھیں نہیں کھولیں قطرہ قطرہ پی رہی ہے گھاس چاند کی جھوٹی شراب خاکستری یادوں کی بارہ دری ...

    مزید پڑھیے

    اگلی رت کی نماز

    میں چاہتی ہوں کہ اگلی رت میں ملوں جو تم سے جنم جنم کی تھکاوٹوں کے خطوط چہرے سے مٹ چکے ہوں قدم قدم اک سفر کی پچھلی علامتیں سب گزر چکی ہوں ملال صحرا نوردی پاؤں کے آبلوں میں سمٹ چکا ہو مسافرت کی تمام رنجش مرے مساموں سے دھل چکی ہو کسی بھی پتھر کا کوئی دھبہ کسی بھی چوکھٹ کا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    دم تحریر

    دم تحریر جن ناپاک گندی عورتوں سے کوثر و تسنیم کترا کے گزریں گی جن پر دودھ اور شہد کے پیالے حرام کر دئے جائیں گے جن کو ملائک دزدیدہ نگاہوں سے بھی دیکھنا نہ چاہیں گے جن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جنہیں دوزخ کی آگ روز جلائے گی جن پر غیظ و غضب کے کوڑے ہر ساعت برسائے جائیں گے ان میں ایک میں ...

    مزید پڑھیے

    انصاف

    میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو مجھے اک کٹہرا فراہم کر دیا گیا میں گواہ ہوں لیکن چشم دید نہیں مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ جو بھی کہوں گی سچ کہوں گی سچ کے سوا کچھ بھی نہیں میں نے قسم کھائی اور گواہی دی میری ہلاکت چشم دید نہ تھی سو قاتل آج بھی گھومتا ہے آزادانہ مگر میں قید ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3