شہناز نبی کی غزل

    زندگی میں یوں تو ہر اک حادثہ ناگاہ تھا

    زندگی میں یوں تو ہر اک حادثہ ناگاہ تھا جسم کے پرچھائیں بننے کا عمل جانکاہ تھا اب تو سارے دشت و دریا ان نگاہوں میں رہیں دن گئے ذوق سفر میں جب کوئی گمراہ تھا خالی پن اپنی جگہ کچھ تلخیاں رکھتا تو ہے کھوکھلے پن سے رفاقت کے بھی دل آگاہ تھا تیور دریا کا شکوہ ہے نہ طوفاں کا گلا میری ...

    مزید پڑھیے

    ہوا سرکش اندھیرا سخت جاں ہے

    ہوا سرکش اندھیرا سخت جاں ہے چراغوں کو مگر کیا کیا گماں ہے یقیں تو جوڑ دیتا ہے دلوں کو کوئی شے اور اپنے درمیاں ہے ابھی سے کیوں لہو رونے لگی آنکھ پس منظر بھی کوئی امتحاں ہے وہی بے فیض راتوں کا تسلسل وہی میں اور وہی خواب گراں ہے مرے اندر ہے ان پیاسا کنارہ مرے اطراف اک دریا رواں ...

    مزید پڑھیے

    عجیب خوف ہے جذبوں کی بے لباسی کا

    عجیب خوف ہے جذبوں کی بے لباسی کا جواز پیش کروں کیا میں اس اداسی کا یہ دکھ ضروری ہے رشتے خلا پذیر ہوئے ادا ہوا ہے مگر قرض خود شناسی کا نہ خواب اور نہ خوف شکست خواب رہا سبب یہی ہے نگاہوں کی بے ہراسی کا کوئی ہے اپنے سوا بھی مسافت شب میں سحر جو ہو تو کھلے راز خوش قیاسی کا وہ سیل اشک ...

    مزید پڑھیے