خواہش

بہت دنوں سے پھول کی یہ خواہش تھی کہ اڑ پائے
لطف رہے گا جب وہ اپنی خوشی سے آئے جائے
اسی پھول نے آخر اک دن دیا شاخ کو دھوکا
تیلی بن ہی گیا وہ جب پھر اس کو کس نے روکا


ہر دن بیٹھ کے سوچا کرتا دیپک کا اجیالا
میں پرواز جو کرتا تو خوشیاں ہو جاتیں دوبالا
اسی سوچ میں آخر اک دن پنکھ اس نے بھی پائے
جگنو بن کر اندھیاروں میں اپنی چھب دکھلائے


تالابوں کا پانی سوچے گم صم دن کٹتے ہیں
بہت مزے میں لیکن پنچھی گگن گگن اڑتے ہیں
پھر اس پانی نے بھی اک دن بھاپ کے پنکھ پسارے
لیکن گہرے بادل کے میلے میں جا کر بارے


میں یہ سوچوں گھوڑا بن کے میداں کر لوں پار
کبھی یہ سوچوں مچھلی بن کر کاٹوں جل کی دھار
کبھی یہ سوچوں پنچھی بن کر چھو لوں نیل گگن
کیا وہ پورا ہوگا سوچوں جو بھی من ہی من