شہناز نبی کے تمام مواد

3 غزل (Ghazal)

    زندگی میں یوں تو ہر اک حادثہ ناگاہ تھا

    زندگی میں یوں تو ہر اک حادثہ ناگاہ تھا جسم کے پرچھائیں بننے کا عمل جانکاہ تھا اب تو سارے دشت و دریا ان نگاہوں میں رہیں دن گئے ذوق سفر میں جب کوئی گمراہ تھا خالی پن اپنی جگہ کچھ تلخیاں رکھتا تو ہے کھوکھلے پن سے رفاقت کے بھی دل آگاہ تھا تیور دریا کا شکوہ ہے نہ طوفاں کا گلا میری ...

    مزید پڑھیے

    ہوا سرکش اندھیرا سخت جاں ہے

    ہوا سرکش اندھیرا سخت جاں ہے چراغوں کو مگر کیا کیا گماں ہے یقیں تو جوڑ دیتا ہے دلوں کو کوئی شے اور اپنے درمیاں ہے ابھی سے کیوں لہو رونے لگی آنکھ پس منظر بھی کوئی امتحاں ہے وہی بے فیض راتوں کا تسلسل وہی میں اور وہی خواب گراں ہے مرے اندر ہے ان پیاسا کنارہ مرے اطراف اک دریا رواں ...

    مزید پڑھیے

    عجیب خوف ہے جذبوں کی بے لباسی کا

    عجیب خوف ہے جذبوں کی بے لباسی کا جواز پیش کروں کیا میں اس اداسی کا یہ دکھ ضروری ہے رشتے خلا پذیر ہوئے ادا ہوا ہے مگر قرض خود شناسی کا نہ خواب اور نہ خوف شکست خواب رہا سبب یہی ہے نگاہوں کی بے ہراسی کا کوئی ہے اپنے سوا بھی مسافت شب میں سحر جو ہو تو کھلے راز خوش قیاسی کا وہ سیل اشک ...

    مزید پڑھیے

22 نظم (Nazm)

    گلشن نا آفریدہ

    بدن کے جھروکے میں جتنی نگاہیں لگی ہیں مری ہیں کوئی اور کب سوچتا ہے کہ غم خانۂ میرؔ کے اس طرف ایک ہنستا مہکتا باغیچہ بھی ہے کتنی ان چھوئی کلیاں جواں تتلیاں رس بھری جھومتی ڈالیاں سوندھی مٹی کی ہم جنس خوشبو لبالب سی اک باؤلی جانے کیا کچھ مگر وہ جھروکہ کہ جس کا مرے دل سے اک واسطہ ...

    مزید پڑھیے

    مرد---عورت

    کب کہاں سے چلی تھی پتہ نہیں جنت نے ٹھکرایا کہ آدم نے پکارا چاروں اور گھنا جنگل ہر شاخ ہاتھ بڑھاتے ہی خود میں سمٹ جاتی تھی جانے کب بے ستر ہوئی کس نے شرم گاہ کی لاج رکھی پاؤں کے نیچے ان گنت راہیں بے حساب نشیب و فراز دونوں طرف سوال و جواب کی اٹوٹ خواہشیں الزامات کے تبادلے کی ...

    مزید پڑھیے

    زمیں تھم گئی ہے

    بدن میں نہ پہلی سی حدت نہ دھڑکن ہے دل میں جئے جانے کی ایک بے شرم عادت ادھر کچھ دنوں سے نگاہوں میں اپنی سبک کر رہی ہے ہزاروں بکھیڑوں میں بھی جانے کب بے ستر آ کھڑی ہوتی ہے یہ حقیقت تو کیا میں بھی ان ان گنت لوگوں میں ہوں جنہیں زندگی اک سزا ہے کوئی بد دعا ہے مگر جی رہے ہیں ابھی کچھ دھواں ...

    مزید پڑھیے

    خواہش

    بہت دنوں سے پھول کی یہ خواہش تھی کہ اڑ پائے لطف رہے گا جب وہ اپنی خوشی سے آئے جائے اسی پھول نے آخر اک دن دیا شاخ کو دھوکا تیلی بن ہی گیا وہ جب پھر اس کو کس نے روکا ہر دن بیٹھ کے سوچا کرتا دیپک کا اجیالا میں پرواز جو کرتا تو خوشیاں ہو جاتیں دوبالا اسی سوچ میں آخر اک دن پنکھ اس نے بھی ...

    مزید پڑھیے

    ناستلجیا

    کئی گرہیں کہ جن کو کھولنے کی ضد میں اپنے ناخنوں کو ہم گنوا بیٹھے کئی باتیں کہ جن کو باندھنے کی کوششوں میں موچ آئی تھی کلائی میں کئی چہرے کہ جن کے خال و خط کو ہم مٹانے کے جتن میں دھوتے رہتے تھے برابر اپنے لوح چشم اب بھی گھیر لیتے ہیں گزرتے وقت نے ہر تجربے کو کہہ کے بچکانہ ہمیں قائل ...

    مزید پڑھیے

تمام