ناستلجیا

کئی گرہیں کہ جن کو کھولنے کی ضد میں
اپنے ناخنوں کو ہم گنوا بیٹھے
کئی باتیں کہ جن کو باندھنے کی کوششوں میں
موچ آئی تھی کلائی میں
کئی چہرے کہ جن کے خال و خط کو ہم
مٹانے کے جتن میں
دھوتے رہتے تھے برابر اپنے لوح چشم
اب بھی گھیر لیتے ہیں
گزرتے وقت نے ہر تجربے کو کہہ کے بچکانہ
ہمیں قائل کیا لیکن
ابھی تک انگلیوں کی ٹیس تڑپاتی ہے رہ رہ کر
لرزتی ہے کلائی اب بھی
لوح چشم پر ہر نقش واضح تر ہے پہلے سے