Shahnawaz Ansari

شاہنواز انصاری

  • 1980

شاہنواز انصاری کی غزل

    چاہتا ہوں کہ ترا ہجر مصیبت نہ لگے

    چاہتا ہوں کہ ترا ہجر مصیبت نہ لگے اب کوئی زخم ترے غم کی بدولت نہ لگے اس کی یادوں کا سفر ختم کروں روئے بغیر غیر ممکن ہے کہ اس کام میں حکمت نہ لگے ظرف ٹوٹے ہوئے کشکول سے گر سکتا ہے ایسی امداد سے بچنا جو سخاوت نہ لگے شہر در شہر مجھے خاک اڑانی ہے مگر اس پہ یہ شرط مسافت بھی مسافت نہ ...

    مزید پڑھیے

    اداس دھوپ سے رشتہ بحال کرنے میں

    اداس دھوپ سے رشتہ بحال کرنے میں درخت سوکھ گئے یہ کمال کرنے میں ہر ایک بار غموں کا مزاج بدلا تھا خوشی سے آنکھ ملا کر ملال کرنے میں ہمارا دل بھی رہا ذمے دار مان لیا تمہیں کیوں وقت لگا استعمال کرنے میں بدن کی آنچ سروں پر اٹھانی پڑتی ہے کسی چراغ سے خود کو مشعل کرنے میں ادھوری ...

    مزید پڑھیے

    نئے خیالوں سے رابطہ کر نئی زمینوں پہ شاعری کر

    نئے خیالوں سے رابطہ کر نئی زمینوں پہ شاعری کر جو عشق کرتی ہیں شاعری سے اب ان حسینوں پہ شاعری کر سیاہ راتیں اداس جگنو اور اس پہ سورج کی بے نیازی اب ایک مصرع تراش ایسے تو آج تینوں پہ شاعری کر سمندروں کے وہ شاہزادے تمام لہروں سے آشنا تھے جنہوں نے دریا کے پاؤں باندھے تھے ان سفینوں ...

    مزید پڑھیے

    تیری پرچھائی کو اب دھوپ دکھانی ہے مجھے

    تیری پرچھائی کو اب دھوپ دکھانی ہے مجھے اس لیے خواب کی دیوار گرانی ہے مجھے حسرتوں کا ابھی لوبان سلگ جائے ذرا پھر دھوئیں پر تیری تصویر بنانی ہے مجھے دھیمے لہجے میں بہت چیخ لیا ہے میں نے اب تو آواز کی رفتار بڑھانی ہے مجھے جو مقدر میں لکھا ہے وہ میسر ہے مگر آخری بار وہ زنجیر ہلانی ...

    مزید پڑھیے

    جو تم پہ یوں ہی لٹائی میں نے اب اس کی قیمت تو چاہیے نا

    جو تم پہ یوں ہی لٹائی میں نے اب اس کی قیمت تو چاہیے نا تمہاری نظروں میں ہے محبت اگر تجارت تو چاہیے نا جو مجھ سے ملنے کی خواہشیں ہوں تو ایک لمحہ طویل کر لو مسافتوں کو سمیٹنا ہے ذرا سی مدت تو چاہیے نا تمہارے لہجے میں طنز ہے پر سنو کچھ اس میں مزہ نہیں ہے تم اس کو تھوڑا سا تلخ کر لو ...

    مزید پڑھیے

    اپنے جیسے دیوانوں کی تھوڑی تو امداد کروں

    اپنے جیسے دیوانوں کی تھوڑی تو امداد کروں سوچ رہا ہوں ہشیاری سے پاگل پن ایجاد کروں ضرب لگا کر ایسا چیخوں سناٹے بھی ڈر جائیں لیکن پہلے آوازیں تو پنجرے سے آزاد کروں پتھر کھانے سے اچھا ہے پتھر کو ہی توڑا جائے عشق اجازت دے تو خود کو مجنوں سے فرہاد کروں تو بادل میں پانی بھر کے رکھ ...

    مزید پڑھیے

    حق بیانی کے چراغوں کو جلا کر آ گیا

    حق بیانی کے چراغوں کو جلا کر آ گیا اس کے دل کو روشنی کا گھر بنا کر آ گیا ایک دیوانہ جسے پیاسا سمجھتے تھے سبھی وہ جھلستی ریت پہ دریا بہا کر آ گیا تھا سکوں درکار مجھ کو خامشی کے شہر میں اس لئے آواز مٹی میں دبا کر آ گیا شرط تھی غرقاب ہونا ہاں مگر تیری رضا پھر سمندر پر کوئی رستہ بنا ...

    مزید پڑھیے

    قفس میں پھیلائے گا یہ پر تو خلا میں دست طلب بنے گا

    قفس میں پھیلائے گا یہ پر تو خلا میں دست طلب بنے گا اور ایک دن پھر یہی پرندہ رہائیوں کا سبب بنے گا سیاہ کاغذ پہ روشنی کے کچھ استعارے تلاش کرنا پھر اس اجالے میں دیکھ لینا ہمارا نام و نسب بنے گا جو خط لفافے میں تھا اچانک ہی اس کے ہاتھوں میں آ گیا ہے تمام لفظوں کے آئینے میں ہمارا ...

    مزید پڑھیے

    گیلی لکڑی کو سلگا کر اشکوں سے عرضی لکھوں گا

    گیلی لکڑی کو سلگا کر اشکوں سے عرضی لکھوں گا آج دھوئیں کے بادل پر میں بارش کو چٹھی لکھوں گا اس زنداں کے کچھ قیدی ہی میری بات سمجھ پائیں گے جب پتھر کی دیواروں پر مٹی سے مٹی لکھوں گا مجھ جیسے کچھ دیوانے ہی زندہ دل ہوتے ہیں صاحب میں اتنا کمزور نہیں جو پنکھا اور رسی لکھوں گا کب تک ...

    مزید پڑھیے

    فقط اک لفظ ہوں تنہا اگر تفصیل ہو جاؤں سنور جاؤں

    فقط اک لفظ ہوں تنہا اگر تفصیل ہو جاؤں سنور جاؤں ابھی تو خاک ہوں میں خاک میں تحلیل ہو جاؤں سنور جاؤں ابھی تک شخصیت ایک نا مکمل خواب جیسی ہے ادھوری ہے کسی دن معجزہ ہو آپ ہی تکمیل ہو جاؤں سنور جاؤں مجھے شب کے اندھیروں میں ابھی کتنا جھلسنا ہے سمجھنا ہے مگر جلتے ہوئے یوں ہی کبھی ...

    مزید پڑھیے