تیری پرچھائی کو اب دھوپ دکھانی ہے مجھے
تیری پرچھائی کو اب دھوپ دکھانی ہے مجھے
اس لیے خواب کی دیوار گرانی ہے مجھے
حسرتوں کا ابھی لوبان سلگ جائے ذرا
پھر دھوئیں پر تیری تصویر بنانی ہے مجھے
دھیمے لہجے میں بہت چیخ لیا ہے میں نے
اب تو آواز کی رفتار بڑھانی ہے مجھے
جو مقدر میں لکھا ہے وہ میسر ہے مگر
آخری بار وہ زنجیر ہلانی ہے مجھے
کاش اس بار میں دریاؤں سے زندہ لوٹوں
کیونکہ یہ خاک تو مٹی میں دبانی ہے مجھے
جس کا کردار ہے دراصل کہانی میری
اب تو درکار وہی اصل کہانی ہے مجھے