اپنے جیسے دیوانوں کی تھوڑی تو امداد کروں
اپنے جیسے دیوانوں کی تھوڑی تو امداد کروں
سوچ رہا ہوں ہشیاری سے پاگل پن ایجاد کروں
ضرب لگا کر ایسا چیخوں سناٹے بھی ڈر جائیں
لیکن پہلے آوازیں تو پنجرے سے آزاد کروں
پتھر کھانے سے اچھا ہے پتھر کو ہی توڑا جائے
عشق اجازت دے تو خود کو مجنوں سے فرہاد کروں
تو بادل میں پانی بھر کے رکھ دے تپتے صحرا میں
اور میں دھوپ کو سایہ کرکے بارش کے دن یاد کروں
پہلے تو میں غم کے سارے دستاویز جلاؤں گا
بعد میں سوچوں گا میں ان پر روؤں یا فریاد کروں
بادل کتنا پاگل ہے جو میرے ہجر پہ روتا ہے
نا میں بادل نا میں پاگل کیوں آنکھیں برباد کروں