جو تم پہ یوں ہی لٹائی میں نے اب اس کی قیمت تو چاہیے نا

جو تم پہ یوں ہی لٹائی میں نے اب اس کی قیمت تو چاہیے نا
تمہاری نظروں میں ہے محبت اگر تجارت تو چاہیے نا


جو مجھ سے ملنے کی خواہشیں ہوں تو ایک لمحہ طویل کر لو
مسافتوں کو سمیٹنا ہے ذرا سی مدت تو چاہیے نا


تمہارے لہجے میں طنز ہے پر سنو کچھ اس میں مزہ نہیں ہے
تم اس کو تھوڑا سا تلخ کر لو ذرا سی لذت تو چاہیے نا


میں چاہتا ہوں کہ عکس تیرا مری نظر سے بھی ہو کے گزرے
یہ دل جو خالی دھڑک رہا ہے اب اس میں حسرت تو چاہیے نا


مجھے وہ کچھ ایسے دیکھتی ہے کہ جیسے مجھ کو بلا رہی ہو
میں اس کی جانب قدم بڑھا لوں مگر اجازت تو چاہیے نا


میں اشک سارے سکھا کے اپنی اداسیاں بھی تباہ کر لوں
مگر مجھے ان تباہیوں کی کوئی ضمانت تو چاہیے نا