قفس میں پھیلائے گا یہ پر تو خلا میں دست طلب بنے گا

قفس میں پھیلائے گا یہ پر تو خلا میں دست طلب بنے گا
اور ایک دن پھر یہی پرندہ رہائیوں کا سبب بنے گا


سیاہ کاغذ پہ روشنی کے کچھ استعارے تلاش کرنا
پھر اس اجالے میں دیکھ لینا ہمارا نام و نسب بنے گا


جو خط لفافے میں تھا اچانک ہی اس کے ہاتھوں میں آ گیا ہے
تمام لفظوں کے آئینے میں ہمارا چہرہ تو اب بنے گا


میں ضبط کرتا رہوں غموں کو تبھی تو یہ خاک نم بنے گی
جنوں میں آ کے بکھر گیا تو غبار میرا لقب بنے گا


ابھی ہے موقع اٹھاؤ خنجر مجھے خموشی سے قتل کر دو
تمہارے لہجے سے زہر ویسے بھی جب بنے گا سو تب بنے گا


جو قدس کی سرزمیں پہ روشن ستارہ بن کے چمک رہا تھا
بہ روز محشر گواہ اس کا عجم سے لے کر عرب بنے گا