چاہتا ہوں کہ ترا ہجر مصیبت نہ لگے
چاہتا ہوں کہ ترا ہجر مصیبت نہ لگے
اب کوئی زخم ترے غم کی بدولت نہ لگے
اس کی یادوں کا سفر ختم کروں روئے بغیر
غیر ممکن ہے کہ اس کام میں حکمت نہ لگے
ظرف ٹوٹے ہوئے کشکول سے گر سکتا ہے
ایسی امداد سے بچنا جو سخاوت نہ لگے
شہر در شہر مجھے خاک اڑانی ہے مگر
اس پہ یہ شرط مسافت بھی مسافت نہ لگے
آؤ اعمال تراشی کی ریہرسل کر لیں
تاکہ جب اس کو پکاریں تو مشقت نہ لگے
ایک سجدہ مری پیشانی کو درکار ہے جو
حسب توفیق لگے حسب ضرورت نہ لگے
تب میں سمجھوں گا کہ اس نفس نے کھائی ہے شکست
رائیگاں شے جو مجھے مال غنیمت نہ لگے