Shahid Shaidai

شاہد شیدائی

  • 1938

شاہد شیدائی کی غزل

    باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت

    باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت اندر ہیں پر مکان کے آلائشیں بہت تو ہے کہ تیرے ساتھ ہیں آسائشیں بہت میں ہوں کہ میرے ساتھ مریں خواہشیں بہت نقش و نگار کیا یہاں دیوار و در نہیں شاید کہ اس مکاں پہ رہیں بارشیں بہت ہم تھے کہ اپنی ذات کے جنگل میں گم رہے تھیں عرصۂ حیات میں گنجائشیں ...

    مزید پڑھیے

    کتاب محبت ہے خواہش گزیدہ

    کتاب محبت ہے خواہش گزیدہ ورق زندگی کے دریدہ دریدہ مری داستاں لفظ لفظ آتشیں ہے فسانہ فسانہ تپیدہ تپیدہ یہاں لمحہ لمحہ بڑا سنگ دل ہے رتیں راحتوں کی کشیدہ کشیدہ کہیں چہرہ چہرہ ہے تصویر حیرت کہیں شہر ہے نقش نقش آب دیدہ مکاں ہیں کہ جنگل کے سائے سراسر مکیں ہیں کہ آہو رمیدہ ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیا جرم ہوا ہے مجھ سے

    جانے کیا جرم ہوا ہے مجھ سے میرا سایہ بھی جدا ہے مجھ سے جسم کا بوجھ لیے جاؤں کہاں خلقت شہر خفا ہے مجھ سے یوں کیا بے سر و ساماں اس نے مجھ کو بھی چھین لیا ہے مجھ سے میری ہستی ہے یہاں کتنی حقیر میرا سایہ بھی بڑا ہے مجھ سے پھر تباہی کی نوید آئی ہے پھر وہی شخص ملا ہے مجھ سے حادثہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    موج آئے کوئی حلقۂ گرداب کی صورت

    موج آئے کوئی حلقۂ گرداب کی صورت میں ریت پہ ہوں ماہیٔ بے آب کی صورت صدیوں سے سرابوں میں گھرا سوچ رہا ہوں بن جائے کہیں سبزۂ شاداب کی صورت آثار نہیں کوئی مگر دل کو یقیں ہے گھر ہوگا کبھی وادیٔ مہتاب کی صورت ہے سوچ کا تیشہ تو نکل آئے گی اک دن پتھر کے حصاروں میں کوئی باب کی ...

    مزید پڑھیے

    کام کرودھ سے ناواقف ہے سدھ بدھ سے بیگانہ بھی

    کام کرودھ سے ناواقف ہے سدھ بدھ سے بیگانہ بھی ورنہ شاہد شیدائیؔ کو کون کہے دیوانہ بھی سندر ناری اپنی سندرتا پر کیوں اٹھلاتی ہو آج کھلا جو غنچہ ہے کل کو ہے اسے کمہلانا بھی ہم نے تو بیگانوں کو بھی اپنے پاس بٹھایا ہے ان کی سبھا میں جائز ہوگا اپنوں کو ٹھکرانا بھی تمرے دھیان کی بنسی ...

    مزید پڑھیے

    جن دنوں لفظوں میں عکس سرخیٔ رخسار تھا

    جن دنوں لفظوں میں عکس سرخیٔ رخسار تھا میری تخلیقات کا ہر نقش اک شہکار تھا دل تجھے پا کر بھی تیری جستجو کرتا رہا تیرے دیوانے کو جانے تجھ سے کیسا پیار تھا کیوں سمجھتا خود کو تنہا زندگی کے دشت میں آپ ہی میں کارواں تھا آپ ہی سالار تھا جذبہ و احساس میرے ہم سفر تھے دوستو زندگی کا ...

    مزید پڑھیے

    جلتی ہوئی زمیں کی نگاہیں ترس گئیں

    جلتی ہوئی زمیں کی نگاہیں ترس گئیں جا کر سمندروں پہ گھٹائیں برس گئیں ٹھہرے نہ پگ ہواؤں کے تپتی زمین پر شبنم صفت جو آئیں تو شعلہ نفس گئیں شاداب وادیاں تھیں جہاں اب وہاں ہیں دشت سرسر کی ناگنیں گھنے پیڑوں کو ڈس گئیں پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا نگاہ میں امرت بھری گھٹاؤں کو آنکھیں ...

    مزید پڑھیے

    سینے کی مثال آگ ہے چاندی سا دھواں ہے

    سینے کی مثال آگ ہے چاندی سا دھواں ہے کیا خوب مرے گھر کی تباہی کا سماں ہے دیکھوں تو مرے غم میں شریک ایک زمانہ سوچوں تو یہاں کوئی مکیں ہے نہ مکاں ہے کس درجہ طلسمی ہے مرے گاؤں کا منظر سوکھے ہوئے ہر کھیت پہ سبزے کا گماں ہے ایسا بھی کوئی شہر تمنا ہے زمیں پر لٹنے کا جہاں خوف نہ اندیشۂ ...

    مزید پڑھیے

    پہنا لباس نے ہے اک اک انگ دیکھنا

    پہنا لباس نے ہے اک اک انگ دیکھنا جسم حسیں پہ پیرہن تنگ دیکھنا ندی چڑھی کہ گاؤں کی گوری جواں ہوئی پانی میں گھل گئے ہیں کئی رنگ دیکھنا پربت کی شام ڈوبتا سورج شفق کا رنگ سونا اگل رہی ہے رگ سنگ دیکھنا جاتی رتوں کی صورت ارژنگ بھول کر آتے سمے کا پیکر صد رنگ دیکھنا آہٹ سنو ہواؤں کی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں ہے پر آنکھ نے دیکھا نہیں ابھی

    آنکھوں میں ہے پر آنکھ نے دیکھا نہیں ابھی وہ بت جسے کہ میں نے تراشا نہیں ابھی لفظوں کے پتھروں میں صنم بے شمار ہیں میرے ہی پاس سوچ کا تیشا نہیں ابھی صدیوں سے نقش ہے جو تصور پہ شاہکار کاغذ پہ اس کا عکس اتارا نہیں ابھی برسوں سے میرے سر پہ ہے ٹکڑا اک ابر کا جل بجھ چکا ہے جسم وہ برسا ...

    مزید پڑھیے