باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت

باہر تو کر رہا ہوں میں آرائشیں بہت
اندر ہیں پر مکان کے آلائشیں بہت


تو ہے کہ تیرے ساتھ ہیں آسائشیں بہت
میں ہوں کہ میرے ساتھ مریں خواہشیں بہت


نقش و نگار کیا یہاں دیوار و در نہیں
شاید کہ اس مکاں پہ رہیں بارشیں بہت


ہم تھے کہ اپنی ذات کے جنگل میں گم رہے
تھیں عرصۂ حیات میں گنجائشیں بہت


اپنا وجود راہ کا پتھر سمجھ کے میں
اپنے خلاف کرتا رہا سازشیں بہت


کچھ گھر چمک اٹھے تو کئی گھر جھلس گئے
رسوا ہیں آفتاب تری تابشیں بہت


ہر لمحہ اک نشاط ہے ظاہر کا میل جول
گہرے ہوں رسم و راہ تو پھر رنجشیں بہت


اپنا بھی لے تو گاؤں کی سادہ سی زندگی
شاہدؔ عبث ہیں شہر میں زیبائشیں بہت