جن دنوں لفظوں میں عکس سرخیٔ رخسار تھا
جن دنوں لفظوں میں عکس سرخیٔ رخسار تھا
میری تخلیقات کا ہر نقش اک شہکار تھا
دل تجھے پا کر بھی تیری جستجو کرتا رہا
تیرے دیوانے کو جانے تجھ سے کیسا پیار تھا
کیوں سمجھتا خود کو تنہا زندگی کے دشت میں
آپ ہی میں کارواں تھا آپ ہی سالار تھا
جذبہ و احساس میرے ہم سفر تھے دوستو
زندگی کا راستہ کیسے کہوں دشوار تھا
کیسے میں باہر نکلتا اب کے میلہ دیکھنے
میرے اندر جب لگا اک درد کا تیوہار تھا
کس جگہ کس دور میں یوسف نہیں بکتے رہے
مصر کے بازار سے کم کون سا بازار تھا
یوں تو دیواریں بہت تھیں شہر میں شاہدؔ مگر
سر پہ یوں سورج تھا عنقا سایۂ دیوار تھا