کتاب محبت ہے خواہش گزیدہ

کتاب محبت ہے خواہش گزیدہ
ورق زندگی کے دریدہ دریدہ


مری داستاں لفظ لفظ آتشیں ہے
فسانہ فسانہ تپیدہ تپیدہ


یہاں لمحہ لمحہ بڑا سنگ دل ہے
رتیں راحتوں کی کشیدہ کشیدہ


کہیں چہرہ چہرہ ہے تصویر حیرت
کہیں شہر ہے نقش نقش آب دیدہ


مکاں ہیں کہ جنگل کے سائے سراسر
مکیں ہیں کہ آہو رمیدہ رمیدہ


یہ کیا المیہ ہے کہ اقلیم فن میں
گروہوں کی چھب ہے جریدہ جریدہ


ترا روپ میری غزل سے امر ہے
کہ تخلیق ہوتی نہیں سن رسیدہ


یہی ایک خوبی یہی ایک خامی
نہ میں نے کہا شان شہہ میں قصیدہ


یقیناً ہوا ہی میں نشتر ہیں شاہدؔ
کہ ہر شاخ گلشن ہوئی خوں چکیدہ