جلتی ہوئی زمیں کی نگاہیں ترس گئیں

جلتی ہوئی زمیں کی نگاہیں ترس گئیں
جا کر سمندروں پہ گھٹائیں برس گئیں


ٹھہرے نہ پگ ہواؤں کے تپتی زمین پر
شبنم صفت جو آئیں تو شعلہ نفس گئیں


شاداب وادیاں تھیں جہاں اب وہاں ہیں دشت
سرسر کی ناگنیں گھنے پیڑوں کو ڈس گئیں


پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا نگاہ میں
امرت بھری گھٹاؤں کو آنکھیں ترس گئیں


خالی ہے اب مکان کہ خواہش کی صورتیں
اگلی محبتوں کے مزاروں میں بس گئیں


دل کش بہت تھی آگ تھی جب تک پڑوس میں
پھیلی جو اپنے گھر میں امیدیں جھلس گئیں


شاہدؔ انہی میں تھی وہ جسے چاہتا ہوں میں
مجھ پر جو لڑکیاں سر بازار ہنس گئیں