Sarvat Husain

ثروت حسین

ثروت حسین کی نظم

    دشوار دن کے کنارے

    خوابوں میں گھر لہروں پر آہستہ کھلتا ہے پاس بلاتا ہے کہتا ہے دھوپ نکلنے سے پہلے سو جاؤں گا میں ہنستا ہوں لڑکی تیرے ہاتھ بہت پیارے ہیں وہ ہنستی ہے دیکھو لالٹین کے شیشے پر کالک جم جائے گی بارش کی یہ رات بہت کالی ہے کچے رستے پر گاڑی کے پہیے گھاؤ بنا کر کھو جاتے ہیں ایک ستار بیس برس کی ...

    مزید پڑھیے

    وصال

    خوشبو کی آواز سنی غنچہ لب کے کھلتے ہی پانی پر کچھ نقش بنے پرتو شاخ کے ہلتے ہی ساری باتیں بھول گئے اس سے آنکھیں ملتے ہی

    مزید پڑھیے

    ''ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے''

    ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے جوتوں کی جوڑی سے یا قبر سے جو بارش میں بیٹھ گئی یا اس پھول سے جو قبر کی پائینی پر کھلا ہر ایک کو کہیں نہ کہیں پناہ مل گئی چینٹیوں کو جائے نماز کے نیچے اور لڑکیوں کو مری آواز میں مردہ بیل کی کھوپڑی میں گلہری نے گھر بنا لیا ہے نظم کا بھی ایک گھر ...

    مزید پڑھیے

    پیپر ویٹ

    پیپر ویٹ ٹھوس شیشے کا بنا ہوا ہے جس کے اندر پھول ہیں جیسے سمندر کی تہہ میں کھلتے ہیں آٹھ جل پریاں ہیں جو رقص کر رہی ہیں پیپر ویٹ اس لیے ہے کہ کاغذ کو ہوا کی زد سے محفوظ رکھے پیپر ویٹ ایک سیارہ ہے جس میں لوگ رہتے بستے ہیں لیکن پیپر ویٹ ان سب باتوں سے بے خبر ہے اسے تو صرف شاعری کی آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    پھول پانی پر کھلا مری موجودگی کا سلطنت صبح بہاراں کی بہت نزدیک سے آواز دیتی ہے سبک رفتار پیہم گھومتے پہیے گراں خوابی سے جاگے آفتابی پیرہن کا گھیر دیواروں کو چھوتا پیار کرتا رقص فرماتا ارے!!! سورج نکل آیا.....

    مزید پڑھیے

    سخاوت کا فرشتہ

    سخاوت کے فرشتے کو اترتا دیکھ کر سورج ہوا روپوش بادل میں، زمیں کہنے لگی آؤ طلائی، نقرئی سکے اچھالو شادمانی کے کھلیں اوراق لوگوں پر کتاب زندگانی کے

    مزید پڑھیے

    اتنے بہت سے رنگ

    سلاخوں سے ادھر کچھ درخت، ایک سڑک، کتے کی زنجیر تھامے ایک آدمی اور ایک ڈور جس پر رنگ برنگے کپڑے سوکھ رہے ہیں جسموں کے بغیر یہ کپڑے، بچوں کے بغیر یہ میدان محبت کے بغیر یہ راستے دنیا کتنی چھوٹی نظر آتی ہے رنگ برنگے کپڑے سوکھ جانے پر ایک عورت آئے گی تب ایک ایک کر کے یہ قمیضیں، پتلونیں ...

    مزید پڑھیے

    چاہت

    آدمی پیڑ اور مکان صاف نیلا آسمان سنگ ریزے اور گلاب سب کے سب اچھے لگے اس کے گھر جاتے ہوئے

    مزید پڑھیے

    مہران، مجھے دو

    مہران، مجھے دو آواز کا اک پنکھ مہران، مجھے دو ٹوٹے ہوئے رشتے پرکھوں کے نوشتے مہران، مجھے دو زرخیز کنارا یہ ہاتھ تمہارا گرم اور سنہرا مہران، مجھے دو امید اور پانی

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3