ستارے کا گمان
سایہ ہے گہری چپ کا اکیلے مکان پر دل مطمئن بہت ہے مگر اس گمان پر روشن ہے اک ستارہ ہمارے بھی نام کا پیڑوں کی چوٹیوں سے ادھر آسمان پر
سایہ ہے گہری چپ کا اکیلے مکان پر دل مطمئن بہت ہے مگر اس گمان پر روشن ہے اک ستارہ ہمارے بھی نام کا پیڑوں کی چوٹیوں سے ادھر آسمان پر
نسیان کے فرشتے وہ یاد محو کر دے دل کی تہہ میں جو میرے کانٹا بنی ہوئی ہے
دھوپ اور دوریوں کے درمیاں ایک آواز سنائی دیتی ہے جیسے مچھلی سیاہ جال سے بے خبر سنہری پروں سے .....پانی کاٹتی ہے
میں ان سے پوچھتا ہوں: پل کیسے بنایا جاتا ہے پل بنانے والے کہتے ہیں: تم نے کبھی محبت نہیں کی میں کہتا ہوں: محبت کیا چیز ہے وہ اپنے اوزار رکھتے ہوئے کہتے ہیں: محبت کا مطلب جاننا چاہتے ہو تو پہلے دریا سے ملو۔۔۔ روئے زمین پر دریا سے زیادہ محبت کرنے والا کوئی نہیں دریا اپنے سمندر کی طرف ...
اتنے گھر اتنے سیارے کنکر پتھر کون گنے دس سے اوپر کون گنے اوزاروں کے نام بہت ہیں ہتھیاروں کے دام بہت ہیں اے سوداگر کون گنے دس سے اوپر کون گنے اے دل اے بے کل فوارے کتنے گھاؤ بنے ہیں پیارے اپنے اندر کون گنے دس سے اوپر کون گنے کتنی لہریں ٹوٹ گئی ہیں بیچ سمندر کون گنے
جب درخت خاموش تھے اور بادل شور کر رہے تھے میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب عورتیں آگ روشن کر رہی تھیں میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب میدان سے ایک بچے کا جنازہ گزر رہا تھا میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب قیدیوں کی گاڑی عدالت کے سامنے کھڑی تھی میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب لوگ عبادت گاہوں کی طرف جا ...
بہتا ہوا پانی پیڑوں کے ماتھے کو چوم گئے بادل شاخوں سے ٹکرائیں ہات کچے پھلوں کی خوشبو جگائے سورج کی بانہوں میں ....رات بہتا ہوا پانی
شادمانی کے فرشتے صبح میں چہرہ ہے کس کا جھلملاتی شام کیا ہے چمن میں وہ جو آتی ہے اس پری کا نام کیا ہے
یہاں مضافات میں اس وقت ٹھیک اس وقت جب زمینی گھڑیاں صبح کے ساڑھے سات بجا رہی ہیں ایک پہیہ بنایا جا رہا ہے لکڑی کے تختوں کو گولائی دینا معمولی کام نہیں اپنے وسط سے باہر پھوٹتی ہوئی روشنی عورت کے برہنہ جسم کے بعد یہ پہلا منظر ہے جس نے مجھے روک لیا ہے اور میں بھول گیا ہوں کہ سیارے پر ...
زمیں اطراف کی کالی ہوئی جلنے لگے دیوے ہوائیں خشک پتوں کو گرا کر سو گئیں شاید فرشتہ نیند کا ناراض ہے مجھ سے یہ کہتا ہے بہت دن سو لیے بے دار رہ کر بھی ذرا دیکھو اذان فجر ہونے تک ستاروں کی ادا دیکھو