Saqib Kanpuri

ثاقب کانپوری

  • 1904 - 1985

ثاقب کانپوری کی غزل

    میں مسرور ہوں اس سے مہجور ہو کر

    میں مسرور ہوں اس سے مہجور ہو کر کہ مجھ سے ملا وہ بہت دور ہو کر تری شان جدت پسندی کے قرباں کہ مختار ٹھہرا میں مجبور ہو کر وہ شکلیں جو دل میں کبھی جلوہ گر تھیں نظر آئیں برق سر طور ہو کر اٹھا ڈالے سارے حجابات میں نے شراب محبت سے مخمور ہو کر امیدوں کی دنیا نہ ہو جائے ویراں فریب تجسس ...

    مزید پڑھیے

    نہ کر تو اے دل مجبور آہ زیر لبی

    نہ کر تو اے دل مجبور آہ زیر لبی نہ ٹوٹ جائے کہیں یہ سکوت نیم شبی یہ کاوش غم پنہاں ہے عشق کا حاصل روا نہیں تری فرقت میں آرزو طلبی خدا کرے یہیں رک جائے گردش دوراں ہے راز دار محبت سکوت نیم شبی کہاں ہوا ہے تو شکوہ گزار محرومی جہاں ہے سانس بھی لینا کمال بے ادبی نمود حسن ہے گویا سراب ...

    مزید پڑھیے

    کسی کو عکس کشی میں کمال ہو نہ سکا

    کسی کو عکس کشی میں کمال ہو نہ سکا مہ دو ہفتہ حریف جمال ہو نہ سکا زبان شوق سے کیا حرف آرزو نکلے کہ جب نگاہ سے بھی عرض حال ہو نہ سکا تپاں تھا خاک محبت پہ دل کا اک ذرہ مگر وہ درد کی زندہ مثال ہو نہ سکا کہاں جمال کی وسعت کہاں دماغ کا ظرف وہ جلوہ رونق بزم خیال ہو نہ سکا سعود نجد نے ...

    مزید پڑھیے

    ہر نفس اک مستقل فریاد ہے

    ہر نفس اک مستقل فریاد ہے کتنی پر غم عشق کی روداد ہے گھٹ رہی ہیں میرے دل کی قوتیں اب یہ شاید آخری فریاد ہے ہو گئی شاید کہ اب تکمیل عشق ورنہ کیوں شور مبارک باد ہے جسم پابند تعین ہو تو ہو روح تو ہر قید سے آزاد ہے پھر کہاں گلشن میں وہ آسودگی آشیاں جب وقف برق و باد ہے دیکھیے انجام ...

    مزید پڑھیے

    اللہ اللہ یہ کیا انجمن آرائی ہے

    اللہ اللہ یہ کیا انجمن آرائی ہے خود تماشا ہے وہی آپ تماشائی ہے درد کو جس کے ترستے ہیں ملک اور فلک شیشۂ دل میں مرے وہ مئے مینائی ہے آہ اس طائر مجبور کی حسرت کو نہ پوچھ جو یہ سنتا ہو قفس میں کہ بہار آئی ہے جس کے جلوے کا فرشتوں نے کیا تھا سجدہ کوہ فاراں پہ وہی شعلۂ سینائی ہے تم جو ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سوز دل بزم کا ساز دینا

    ذرا سوز دل بزم کا ساز دینا کہ خود بولنا ہے خود آواز دینا عجب ذوق پنہاں ہے رنگ تپش میں تسلی نہ اے شوخ انداز دینا کبھی ڈھونڈھنا گو شہائے حرم میں کبھی دیر میں جا کے آواز دینا گلوں کے ہیں آغوش وا بہر رخصت ذرا بڑھ کے بلبل کو آواز دینا نہ لے میرا ایمان اے بے نیازی کہ ہے نذر جلوہ گہہ ...

    مزید پڑھیے

    اس عشق کا انجام میں کچھ سوچ رہا ہوں

    اس عشق کا انجام میں کچھ سوچ رہا ہوں ہاں اے ہوس خام میں کچھ سوچ رہا ہوں خالی ہوئے سب جام نہیں کوئی بھی مے کش اے درد تہ جام میں کچھ سوچ رہا ہوں جی بھر کے تجھے آج میں دیکھوں کہ نہ دیکھوں اے حسن لب بام میں کچھ سوچ رہا ہوں اپنے دل بیتاب سے میں خود ہوں پریشاں کیا دوں انہیں الزام میں کچھ ...

    مزید پڑھیے

    تسکین مرگ بھول گیا اضطراب میں

    تسکین مرگ بھول گیا اضطراب میں اللہ پڑ گیا مرا دل کس عذاب میں اللہ رے فروغ رخ برق تاب میں مستی میں ہے شباب کہ مستی شباب میں اے دست شوق آج وہ آئے ہیں خواب میں دامن نہ چھوٹ جائے کہیں اضطراب میں ہر نقشۂ خیال بنا اور مٹ گیا امید اب کہاں دل خانہ خراب میں جویائے عیش و طالب راحت نہیں ...

    مزید پڑھیے