ذرا سوز دل بزم کا ساز دینا

ذرا سوز دل بزم کا ساز دینا
کہ خود بولنا ہے خود آواز دینا


عجب ذوق پنہاں ہے رنگ تپش میں
تسلی نہ اے شوخ انداز دینا


کبھی ڈھونڈھنا گو شہائے حرم میں
کبھی دیر میں جا کے آواز دینا


گلوں کے ہیں آغوش وا بہر رخصت
ذرا بڑھ کے بلبل کو آواز دینا


نہ لے میرا ایمان اے بے نیازی
کہ ہے نذر جلوہ گہہ ناز دینا


خیاباں خیاباں میں پیہم تجسس
بیاباں بیاباں میں آواز دینا


ادھر میری توبہ کی ڈھارس بندھانا
ادھر مجھ کو ساغر بصد ناز دینا


ہے گم کردہ راہ محبت میں ثاقبؔ
ذرا مڑ کے پھر اس کو آواز دینا