تسکین مرگ بھول گیا اضطراب میں
تسکین مرگ بھول گیا اضطراب میں
اللہ پڑ گیا مرا دل کس عذاب میں
اللہ رے فروغ رخ برق تاب میں
مستی میں ہے شباب کہ مستی شباب میں
اے دست شوق آج وہ آئے ہیں خواب میں
دامن نہ چھوٹ جائے کہیں اضطراب میں
ہر نقشۂ خیال بنا اور مٹ گیا
امید اب کہاں دل خانہ خراب میں
جویائے عیش و طالب راحت نہیں ہوں
اک لطف آ رہا ہے مجھے اس عذاب میں
بیگانۂ فراق ہوں امید و یاس سے
اک کشمکش ہے اس دل خانہ خراب میں
بیتابئ فراق کا عالم نہ پوچھئے
دامان ضبط بھی ہے کف اضطراب میں