Saqib Kanpuri

ثاقب کانپوری

  • 1904 - 1985

ثاقب کانپوری کی نظم

    گنگا

    اے بہار گنگ اے بھارت نواز تیری ہستی پر ہے اک عالم کو ناز تیرے آئینے میں ہے عکس فلک قطرے قطرے میں مسرت کی جھلک تیرے سینے میں ہیں گوہر ہائے راز راگ پانی کا ہے کتنا دل گداز راگ کے پردے میں ہے شان حجاب تیری موجوں سے جھلکتا ہے شباب تیرتے ہیں پھول یوں ساحل کے پاس تازہ داغ دل ہوں گویا دل ...

    مزید پڑھیے

    غریب کسان

    اے نیچر کے راج دلارے اے فطرت کی آنکھ کے تارے محنت کا پھل پانے والے کاندھے پر ہل لے جانے والے صدیاں پلٹیں دنیا بدلے یا ملکوں کا نقشہ بدلے کچھ سے کچھ ہوں رنگ فضا کے چرخ سے برسیں آگ کے شعلے دھیمی ہو یا تند ہوا ہو عالم ہر وادی کا نیا ہو چرخ ہزاروں پلٹے کھائے کیا ممکن جو تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    گنگا اشنان

    اے بہار گنگ اے سرمایۂ پاکیزگی تیری ہستی تشنہ کاموں کے لئے مے خانہ ہے درس آموز فنا ہے قطرہ قطرہ آب کا یا حبابوں کی زباں پر نعرۂ مستانہ ہے تیرے پہلو میں ہے اک دوشیزۂ حسن و جمال جس کی تصویر جوانی اک سراپا نور ہے موج اک اٹکھیلیوں سے چھیڑ کرتی ہے وہ آنکھ جو ازل سے کیف آگیں ہے نشے میں ...

    مزید پڑھیے

    دل

    اے دل بیتاب تجھ میں ہے صفت سیماب کی تیرے قطروں میں ہیں کچھ بوندیں شراب ناب کی تیرے آئینہ سے پیدا ہے محبت کا طلسم تیری نیرنگی میں پوشیدہ ہے حیرت کا طلسم ساغر رنگیں میں ہے کثرت نمائی کی جھلک تیری موجوں نے دکھائی ہے خدائی کی جھلک نقش الفت سے نمایاں اک نیا انداز ہے تو حریم عشق ہے یا ...

    مزید پڑھیے

    شاعر

    ساری دنیا سو رہی ہے اور تو بیدار ہے دور ہے راحت سے اور لذت کش آزار ہے لے رہا ہے ذرے ذرے سے تو عبرت کا سبق یعنی ہر ہر گام پر ہوتا ہے سینہ تیرا شق تیری نظریں دیکھتی ہیں انتہا آغاز میں محو ہو جاتا ہے جب تو انکشاف راز میں ظاہری رنج و الم سے دل ترا بیگانہ ہے انکشاف راز یزدانی کا تو ...

    مزید پڑھیے

    بیوہ اور برسات

    چھائی ہوئی ہے تیرگی اس پہ یہ منہ کی ہے جھڑی رات کٹے گی کس طرح حشر نما ہے ہر گھڑی دیکھتی ہے سوئے فلک ہائے ترس ترس کے آنکھ اور مجھے ڈبوئے گی آج برس برس کے آنکھ گریہ بے اثر مرا اپنا اثر دکھائے کیا دل کی لگی بجھائے کیا دل کی لگی بجھائے کیا آج یہ ابر کی گرج خوب رلائے گی مجھے لوں گی ہزار ...

    مزید پڑھیے

    آنسو

    اے مرے آنسو کبھی بیکار ہو جاتا ہے تو اور کبھی دامن پہ بن جاتا ہے اک نقش وفا تیری قیمت کچھ نہیں رہتی ہے نظروں میں کبھی اور کبھی ہو جاتا ہے گنج ہائے بے بہا پرورش پاتا ہے تو قلب حزیں میں اس طرح جس طرح چشم صدف میں گوہر سرمایہ دار تیرے سینے میں ہیں پنہاں راز ہائے رنج و غم تو ہے پچھلی کیف ...

    مزید پڑھیے