اللہ اللہ یہ کیا انجمن آرائی ہے

اللہ اللہ یہ کیا انجمن آرائی ہے
خود تماشا ہے وہی آپ تماشائی ہے


درد کو جس کے ترستے ہیں ملک اور فلک
شیشۂ دل میں مرے وہ مئے مینائی ہے


آہ اس طائر مجبور کی حسرت کو نہ پوچھ
جو یہ سنتا ہو قفس میں کہ بہار آئی ہے


جس کے جلوے کا فرشتوں نے کیا تھا سجدہ
کوہ فاراں پہ وہی شعلۂ سینائی ہے


تم جو آ جاؤ تو اس عشق کا پردہ رہ جائے
ورنہ اب ضبط ہے باقی نہ شکیبائی ہے


میں اسے خوب سمجھتا ہوں جو حالت ہے مری
ہاں مگر دل کو وہی درس شکیبائی ہے


ہو جہاں مرغ تخیل کی نہ پرواز رسا
اس بلندی پہ مری ناصیہ فرسائی ہے


ہے یہ ثاقبؔ اسی اک جلوۂ رنگیں کا اثر
مرے شیشہ میں جو کچھ بادۂ مینائی ہے