اس عشق کا انجام میں کچھ سوچ رہا ہوں

اس عشق کا انجام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ہاں اے ہوس خام میں کچھ سوچ رہا ہوں


خالی ہوئے سب جام نہیں کوئی بھی مے کش
اے درد تہ جام میں کچھ سوچ رہا ہوں


جی بھر کے تجھے آج میں دیکھوں کہ نہ دیکھوں
اے حسن لب بام میں کچھ سوچ رہا ہوں


اپنے دل بیتاب سے میں خود ہوں پریشاں
کیا دوں انہیں الزام میں کچھ سوچ رہا ہوں


میرے لئے محبوب کی زلفوں کی ہوا لا
اے گردش ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں


تارے سے چمکنے لگے تاریک فضا میں
ہاتھوں میں لئے جام میں کچھ سوچ رہا ہوں


اک وہ بھی زمانہ تھا کہ فارغ تھا میں ثاقبؔ
اب تو سحر و شام میں کچھ سوچ رہا ہوں