Sania Shaikh

ثانیہ شیخ

ثانیہ شیخ کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    ہر کہی ان کہی سمجھتا ہے

    ہر کہی ان کہی سمجھتا ہے دل تری خامشی سمجھتا ہے چپ یوں ہی بے سبب نہیں رہتا وہ مری شاعری سمجھتا ہے دل کو الجھا نہ یوں سوالوں میں یہ تری سادگی سمجھتا ہے ہر کسی سے نہیں کیا کرتے بات کب ہر کوئی سمجھتا ہے میں سمجھتی ہوں جو تجھے ہمدم کیا مجھے تو وہی سمجھتا ہے روٹھتا ہی نہیں کسی ...

    مزید پڑھیے

    میں تری بات چنبیلی سے کروں

    میں تری بات چنبیلی سے کروں شعر کہہ دوں کہ پہیلی سے کروں ایسی طاری ہے اداسی اب کہ کب ترا ذکر سہیلی سے کروں آنکھ میں بھیگتا ہے کاجل بھی رنگ جو ماند ہتھیلی سے کروں لوٹ آتی ہے ترے نام کی گونج جوں صدا بند حویلی سے کروں دن سے کچھ دوستی نہیں میری بات میں رات اکیلی سے کروں

    مزید پڑھیے

    دیکھ لو ضد پہ اڑا ہے اب تک

    دیکھ لو ضد پہ اڑا ہے اب تک دل ترے ساتھ کھڑا ہے اب تک کوئی ہے کھینچ نکالے اس کو درد سینے میں گڑا ہے اب تک خواب میں بھی نہ دکھائی دے تو ہائے کیا قحط پڑا ہے اب تک کوئی صورت ہو دکھائی تو دے تو کہ آنکھوں میں جڑا ہے اب تک وہ جہاں تو نے مجھے چھوڑا تھا اس جگہ پیڑ کھڑا ہے اب تک

    مزید پڑھیے

    اک زمانہ گزر گیا ہے مجھے (ردیف .. ا)

    اک زمانہ گزر گیا ہے مجھے اک خدا نے گلے لگایا تھا جو مرے ساتھ چلا آیا تھا تیری آواز کا ہی سایا تھا میں نے آواز دوبارہ دی ہے شاید اک بار سن نہ پایا تھا تیری پیشانی کے ستارے کو دل مرا چومنے کو آیا تھا ایک زنجیر کھولنی ہوگی ایک پاؤں اگر اٹھایا تھا ایک خوشبو مجھے بلاتی ہے اک تمنا ...

    مزید پڑھیے

5 نظم (Nazm)

    میں انسان ہوں

    ہر رنگ میں خوب صورت ہر ڈھنگ میں بے مثال تم مجھے رنگ زاویے قد کاٹھ سے مت ماپو میرے دماغ کے روبرو آؤ میں تمہارے برابر نہیں تم سے بہتر ہوں میں عورت ہوں

    مزید پڑھیے

    قرار جاں

    تمہارے عارض و لب پہ نثار کتنے ہوں تمہارے فکر و جمال کے ہوں شیدائی تمہارے صندلی بوسے کسی رخ پہ مہرباں ہوں تمہارے بازوؤں کی پناہیں کسی کا حاصل ہوں تمہارے گیسوئے مشکبار کسی کی سانس مہکائیں تمہارے نقرئی لب لاکھ کیف چرائیں تمہارے دل پہ کسی کی مہر جگمگاتی ہو مگر اتنا تو ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    تم آنکھیں کھولتے ہو تو تتلیوں کے پر مجھے چھو کر گزرتے ہیں کنول کے پھول دل کی جھیل میں ہلکورے لیتے ہیں تمہارے بازوؤں میں آسماں کی رفعتیں بسرام کرتی ہیں میں اپنے ادھ کھلے خوابوں کو ریشمی آواز دیتی ہوں خمار آلود مشک بار نظمیں میرے در پہ دستک سی دیتی ہیں

    مزید پڑھیے

    یہ کیسا رائیگاں سا

    انتظار سونپا ہے تم نے نہ کوئی حرف دل داری کہ جس کو دہراتے ہوئے سبھی پھیکے سے دن کاسنی بیلوں سے ڈھک جائیں نہ کوئی لمس کی اترن کہ جس کو اوڑھ کے میں شام کے پہلو میں بیٹھی تمہارے وصل کے کچھ خواب ہی کاڑھوں نہ کوئی بوسۂ امید میرے ماتھے پہ مہکا کہ جس کی لو میں میری نظمیں رات بھر رقص کرتی ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھے بیٹھے

    میرا چہرہ تمہارا بن جاتا ہے تمہاری آنکھوں سے دیکھتی ہوں تمہارے ہونٹوں سے مسکراتی ہوں میں تم بن جاتی ہوں

    مزید پڑھیے