Sania Shaikh

ثانیہ شیخ

ثانیہ شیخ کی غزل

    ہر کہی ان کہی سمجھتا ہے

    ہر کہی ان کہی سمجھتا ہے دل تری خامشی سمجھتا ہے چپ یوں ہی بے سبب نہیں رہتا وہ مری شاعری سمجھتا ہے دل کو الجھا نہ یوں سوالوں میں یہ تری سادگی سمجھتا ہے ہر کسی سے نہیں کیا کرتے بات کب ہر کوئی سمجھتا ہے میں سمجھتی ہوں جو تجھے ہمدم کیا مجھے تو وہی سمجھتا ہے روٹھتا ہی نہیں کسی ...

    مزید پڑھیے

    میں تری بات چنبیلی سے کروں

    میں تری بات چنبیلی سے کروں شعر کہہ دوں کہ پہیلی سے کروں ایسی طاری ہے اداسی اب کہ کب ترا ذکر سہیلی سے کروں آنکھ میں بھیگتا ہے کاجل بھی رنگ جو ماند ہتھیلی سے کروں لوٹ آتی ہے ترے نام کی گونج جوں صدا بند حویلی سے کروں دن سے کچھ دوستی نہیں میری بات میں رات اکیلی سے کروں

    مزید پڑھیے

    دیکھ لو ضد پہ اڑا ہے اب تک

    دیکھ لو ضد پہ اڑا ہے اب تک دل ترے ساتھ کھڑا ہے اب تک کوئی ہے کھینچ نکالے اس کو درد سینے میں گڑا ہے اب تک خواب میں بھی نہ دکھائی دے تو ہائے کیا قحط پڑا ہے اب تک کوئی صورت ہو دکھائی تو دے تو کہ آنکھوں میں جڑا ہے اب تک وہ جہاں تو نے مجھے چھوڑا تھا اس جگہ پیڑ کھڑا ہے اب تک

    مزید پڑھیے

    اک زمانہ گزر گیا ہے مجھے (ردیف .. ا)

    اک زمانہ گزر گیا ہے مجھے اک خدا نے گلے لگایا تھا جو مرے ساتھ چلا آیا تھا تیری آواز کا ہی سایا تھا میں نے آواز دوبارہ دی ہے شاید اک بار سن نہ پایا تھا تیری پیشانی کے ستارے کو دل مرا چومنے کو آیا تھا ایک زنجیر کھولنی ہوگی ایک پاؤں اگر اٹھایا تھا ایک خوشبو مجھے بلاتی ہے اک تمنا ...

    مزید پڑھیے