Sania Shaikh

ثانیہ شیخ

ثانیہ شیخ کی نظم

    میں انسان ہوں

    ہر رنگ میں خوب صورت ہر ڈھنگ میں بے مثال تم مجھے رنگ زاویے قد کاٹھ سے مت ماپو میرے دماغ کے روبرو آؤ میں تمہارے برابر نہیں تم سے بہتر ہوں میں عورت ہوں

    مزید پڑھیے

    قرار جاں

    تمہارے عارض و لب پہ نثار کتنے ہوں تمہارے فکر و جمال کے ہوں شیدائی تمہارے صندلی بوسے کسی رخ پہ مہرباں ہوں تمہارے بازوؤں کی پناہیں کسی کا حاصل ہوں تمہارے گیسوئے مشکبار کسی کی سانس مہکائیں تمہارے نقرئی لب لاکھ کیف چرائیں تمہارے دل پہ کسی کی مہر جگمگاتی ہو مگر اتنا تو ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    تم آنکھیں کھولتے ہو تو تتلیوں کے پر مجھے چھو کر گزرتے ہیں کنول کے پھول دل کی جھیل میں ہلکورے لیتے ہیں تمہارے بازوؤں میں آسماں کی رفعتیں بسرام کرتی ہیں میں اپنے ادھ کھلے خوابوں کو ریشمی آواز دیتی ہوں خمار آلود مشک بار نظمیں میرے در پہ دستک سی دیتی ہیں

    مزید پڑھیے

    یہ کیسا رائیگاں سا

    انتظار سونپا ہے تم نے نہ کوئی حرف دل داری کہ جس کو دہراتے ہوئے سبھی پھیکے سے دن کاسنی بیلوں سے ڈھک جائیں نہ کوئی لمس کی اترن کہ جس کو اوڑھ کے میں شام کے پہلو میں بیٹھی تمہارے وصل کے کچھ خواب ہی کاڑھوں نہ کوئی بوسۂ امید میرے ماتھے پہ مہکا کہ جس کی لو میں میری نظمیں رات بھر رقص کرتی ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھے بیٹھے

    میرا چہرہ تمہارا بن جاتا ہے تمہاری آنکھوں سے دیکھتی ہوں تمہارے ہونٹوں سے مسکراتی ہوں میں تم بن جاتی ہوں

    مزید پڑھیے