اک زمانہ گزر گیا ہے مجھے (ردیف .. ا)

اک زمانہ گزر گیا ہے مجھے
اک خدا نے گلے لگایا تھا


جو مرے ساتھ چلا آیا تھا
تیری آواز کا ہی سایا تھا


میں نے آواز دوبارہ دی ہے
شاید اک بار سن نہ پایا تھا


تیری پیشانی کے ستارے کو
دل مرا چومنے کو آیا تھا


ایک زنجیر کھولنی ہوگی
ایک پاؤں اگر اٹھایا تھا


ایک خوشبو مجھے بلاتی ہے
اک تمنا نے سر اٹھایا تھا


اب تری ہارنے کی باری ہے
جیت کا شوق جو چرایا تھا


بے سبب تلخیاں نہیں ہوتیں
زہر برسوں مجھے پلایا تھا