Sameena Gul

ثمینہ گل

ثمینہ گل کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    وہ مجھ کو مانگتا ہے زیبائی چاہتا ہے

    وہ مجھ کو مانگتا ہے زیبائی چاہتا ہے میرے خلاف مجھ سے پسپائی چاہتا ہے ہوگی قبول لیکن یہ شرط لازمی ہے مقبولیت کی خاطر گہرائی چاہتا ہے صحرا کی چھانتا ہے وہ خاک خاک ذرہ اک اجنبی سا غم ہے رسوائی چاہتا ہے مکر و فریب لے کر ہر شخص دیکھتا ہے دل سب سے بھر گیا ہے تنہائی چاہتا ہے دل ...

    مزید پڑھیے

    مرے ہم قدم مرے ہم نشیں مرے ساتھ چل

    مرے ہم قدم مرے ہم نشیں مرے ساتھ چل مرے ہم سفر مرا کر یقیں مرے ساتھ چل شب ہجر میں جو تھی تلخیاں سبھی بھول جا مجھے دل میں رکھ مرا گھر یہیں مرے ساتھ چل میں ترے وجود کی شاخ ہوں مجھے کاٹ مت مجھے پاس رکھ میں گماں نہیں مرے ساتھ چل یہ جو لا مکان کے سلسلے تری ذات کے تری ذات میں ہوں نہاں ...

    مزید پڑھیے

    اک شمع انجمن میں جلاتی رہی ہوں میں

    اک شمع انجمن میں جلاتی رہی ہوں میں جل جل کے دیپ خود ہی بناتی رہی ہوں میں کیا پوچھتے ہو اب مری سانسوں کا رابطہ رو رو کے حال سب کو بتاتی رہی ہوں میں ہر بار زندگی نے دیا اک نیا فریب پھر زندگی سے آس لگاتی رہی ہوں میں شاخوں سے پوچھتی رہی ہے سر پھری ہوا کس کے لیے زمین سجاتی رہی ہوں ...

    مزید پڑھیے

    شوق دیدار نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا

    شوق دیدار نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا جان من کیسے بتائیں تمہیں کیا کیا دیکھا زندگی آگ ہے اور آگ کی خاطر ہم نے دیپ کی آنکھ میں جلتا ہوا چہرہ دیکھا میں نے لمحوں میں گزاری ہیں ہزاروں صدیاں وقت کی دھوپ میں پگھلا ہوا دریا دیکھا صبح روشن نے اتاری ہیں ستارہ آنکھیں شاخ شمشاد نے گلشن کا ...

    مزید پڑھیے

    شوق دیدار نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا

    شوق دیدار نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا جان من کیسے بتائیں تمہیں کیا کیا دیکھا زندگی آگ ہے اور آگ کی خاطر ہم نے دیپ کی آنکھ میں جلتا ہوا چہرا دیکھا میں نے لمحوں میں گزاری ہیں ہزاروں صدیاں وقت کی دھوپ میں پگھلا ہوا دریا دیکھا صبح روشن نے اتاری ہیں ستاری آنکھیں شاخ شمشاد نے گلشن کا ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    سفر آغاز کرتے ہیں

    سفر آغاز کرتے ہیں کسی انجان منزل کا سفر کے راستے میں دور تک صحرا ہی صحرا ہے جہاں سورج نئے دن کی مسافت سے ذرا پہلے وہ اپنی روشنی کا ملگجا سا رنگ پہنے آسماں کے نیلگوں پردوں سے لڑتا ہے تو صحرا کا حسیں منظر کسی پارس کے ٹکڑوں سے فضا رنگین کرتا ہے یکایک وہ حسیں منظر اسی پارس کے ٹکڑوں ...

    مزید پڑھیے

    بند حویلی

    ایک حویلی بند پڑی تھی جانے کب سے بند پڑی تھی جانے کب تک بند رہے گی اس کے سارے دروازوں پر بٹوارے کے قفل پڑے تھے سناٹے کا شور اٹھائے ویرانی سی گونج رہی تھی بیچ حویلی کے آنگن کے بوڑھے برگد کی شاخوں پر خالی جھولا جھول رہا تھا دور افق پہ خوشبو بیٹھی ٹوٹے برتن جوڑ رہی تھی گھر کی ساری ...

    مزید پڑھیے

    پچھلے پہر کی رات

    پچھلے پہر کی رات عجب حادثہ ہوا سونے سے پہلے چاند ہی بانہوں کو کھول کر جھک کر زمیں پہ آ گیا قدموں کو چھو لیا انگلی پکڑ کے ساتھ میں اپنے وہ لے گیا پہلے تو دیر تک مجھے وہ دیکھتا رہا پہلو میں رکھ کے سر مرے پھر سسکیاں بھریں پھر یوں ہوا کہ ٹوٹ کے رونے لگا تھا وہ شاید کسی کے ہجر کا مارا ہوا ...

    مزید پڑھیے