سفر آغاز کرتے ہیں

سفر آغاز کرتے ہیں
کسی انجان منزل کا
سفر کے راستے میں دور تک
صحرا ہی صحرا ہے
جہاں سورج نئے دن کی
مسافت سے ذرا پہلے
وہ اپنی روشنی کا
ملگجا سا رنگ پہنے
آسماں کے نیلگوں
پردوں سے لڑتا ہے
تو صحرا کا حسیں منظر
کسی پارس کے ٹکڑوں سے
فضا رنگین کرتا ہے
یکایک وہ حسیں منظر
اسی پارس کے ٹکڑوں کو
جلا کر لال کرتا ہے
کسی پیاسے کی شدت
اور شدت کی بھی شدت ہے
کہ جب دریا ابلنے کی کئی
ناکام کوشش میں ابلتا ہے
لب دریا کبھی سورج سوا نیزے پہ آ کے جھول جاتا ہے
تبھی پھر شام کا منظر
اندھیری رات میں جل کر
نظر کے طاقچے سے ڈھونڈ لاتا ہے
وہ ہیرے جو ابد تک
روشنی دیں گے
جلا دیں گے اندھیروں کو
سفر کو راستہ دیں گے