اک شمع انجمن میں جلاتی رہی ہوں میں

اک شمع انجمن میں جلاتی رہی ہوں میں
جل جل کے دیپ خود ہی بناتی رہی ہوں میں


کیا پوچھتے ہو اب مری سانسوں کا رابطہ
رو رو کے حال سب کو بتاتی رہی ہوں میں


ہر بار زندگی نے دیا اک نیا فریب
پھر زندگی سے آس لگاتی رہی ہوں میں


شاخوں سے پوچھتی رہی ہے سر پھری ہوا
کس کے لیے زمین سجاتی رہی ہوں میں


رکھے ہوئے کھڑی ہوں محبت منڈیر پر
دیوار نفرتوں کی گراتی رہی ہوں میں


ہیں آبگینہ جیسے مری زندگی کے رنگ
طوفاں سے آئنوں کو بچاتی رہی ہوں میں


بن جائیں کل سروں پہ یہ سایہ گھنیر سا
پودے جگہ جگہ پہ لگاتی رہی ہوں میں


نرگس کہا کسی نے کسی نے کہا ہے گل
آنکھیں زمیں کے بیچ اگاتی رہی ہوں میں