بند حویلی

ایک حویلی بند پڑی تھی
جانے کب سے بند پڑی تھی
جانے کب تک بند رہے گی
اس کے سارے دروازوں پر
بٹوارے کے قفل پڑے تھے
سناٹے کا شور اٹھائے
ویرانی سی گونج رہی تھی
بیچ حویلی کے آنگن کے
بوڑھے برگد کی شاخوں پر
خالی جھولا جھول رہا تھا
دور افق پہ خوشبو بیٹھی
ٹوٹے برتن جوڑ رہی تھی
گھر کی ساری دیواروں کے
وحشت کے سازینے تھے
بانس کی جھاڑو گیت سناتی
آنگن آنگن گھوم رہی تھی
شاخ سے ٹوٹے سارے پتے
پیلے رنگ کو دھارے پتے
ساتھ ہوا کے ناچ رہے تھے
گھر آنگن میں بسنے والے
اک دوجے کو ڈستے ڈستے
زہریلے ناگوں کی مانند
پھن پھلائے آ کھڑے تھے
میرے کمرے کی کھڑکی سے
دو آنکھیں بھی جھانک رہی تھیں