Sameena Gul

ثمینہ گل

ثمینہ گل کی نظم

    سفر آغاز کرتے ہیں

    سفر آغاز کرتے ہیں کسی انجان منزل کا سفر کے راستے میں دور تک صحرا ہی صحرا ہے جہاں سورج نئے دن کی مسافت سے ذرا پہلے وہ اپنی روشنی کا ملگجا سا رنگ پہنے آسماں کے نیلگوں پردوں سے لڑتا ہے تو صحرا کا حسیں منظر کسی پارس کے ٹکڑوں سے فضا رنگین کرتا ہے یکایک وہ حسیں منظر اسی پارس کے ٹکڑوں ...

    مزید پڑھیے

    بند حویلی

    ایک حویلی بند پڑی تھی جانے کب سے بند پڑی تھی جانے کب تک بند رہے گی اس کے سارے دروازوں پر بٹوارے کے قفل پڑے تھے سناٹے کا شور اٹھائے ویرانی سی گونج رہی تھی بیچ حویلی کے آنگن کے بوڑھے برگد کی شاخوں پر خالی جھولا جھول رہا تھا دور افق پہ خوشبو بیٹھی ٹوٹے برتن جوڑ رہی تھی گھر کی ساری ...

    مزید پڑھیے

    پچھلے پہر کی رات

    پچھلے پہر کی رات عجب حادثہ ہوا سونے سے پہلے چاند ہی بانہوں کو کھول کر جھک کر زمیں پہ آ گیا قدموں کو چھو لیا انگلی پکڑ کے ساتھ میں اپنے وہ لے گیا پہلے تو دیر تک مجھے وہ دیکھتا رہا پہلو میں رکھ کے سر مرے پھر سسکیاں بھریں پھر یوں ہوا کہ ٹوٹ کے رونے لگا تھا وہ شاید کسی کے ہجر کا مارا ہوا ...

    مزید پڑھیے