ہوا کچھ یوں کہ پچھتائے بہت ہیں
ہوا کچھ یوں کہ پچھتائے بہت ہیں تمہیں سوچا شرمائے بہت ہیں جسے پھولوں کے تحفے ہم نے بھیجے اسی نے سنگ برسائے بہت ہیں جو سچ پوچھو تو اب کے یوں ہوا ہے تیرے غم سے بھی اکتائے بہت ہیں چبھے پاؤں میں کانٹے یاد آیا کہ ہم نے پیل ٹھکرائے بہت ہیں اور اب تو غم چھپانا آ گیا ہے کہ آنسو پی کے ...