Sameena Aslam Sameena

ثمینہ اسلم ثمینہ

ثمینہ اسلم ثمینہ کی نظم

    ساون سے وہ پیار کرے

    اور خود بھی ہے آوارہ بادل کبھی تو بن برسے اڑ جائے اور کبھی تن من جل تھل اس کے پیار کی برکھا رت میں یوں بھیگوں میں دن رات بال بال سے موتی ٹپکیں امڈے آنکھوں سے برسات

    مزید پڑھیے

    بچپن

    بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے تھے تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں تتلی کے پر نوچ کے ناچا کرتے تھے پاؤں مار کے خود بارش کے پانی میں اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھے چھوٹے تھے تو مکر و فریب بھی چھوٹے تھے دانہ ڈال کے چڑیا پکڑا کرتے تھے اپنے جل جانے کا بھی ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    میں پونم کا چاند ہوں جسے جبر کے گہن نے کھا لیا میرے حسین و جمیل اللہ حسین ہر معاملہ میرا کر دے شکستہ دل ہوں شکستہ پر ہوں شکستگی کو شگفتہ کر دے

    مزید پڑھیے

    نظم

    میرے ہم راہ دکھوں کا یہ جھمیلا کیوں ہے زندگی تو ہی بتا تیرا رویہ مجھ سے اس قدر روٹھا ہوا اتنا سوتیلا کیوں ہے

    مزید پڑھیے

    جدائی کے چار موسم

    پہلا موسم جلدی آنا دیکھ بہاریں آنے کو ہیں کلی کلی مسکانے کو ہے دوسرا موسم آ بھی جا نا کہیں بہاریں بیت نہ جائیں پھر یہ جدائیاں جیت نہ جائیں تیسرا موسم اب جو آنا ساتھ میں اک چنگاری لانا ڈھیر ہے اک سوکھے پتوں کا آخری موسم اب نہ آنا پتا پتا بکھر چکا ہے

    مزید پڑھیے