Sameena Aslam Sameena

ثمینہ اسلم ثمینہ

ثمینہ اسلم ثمینہ کی غزل

    ہوا کچھ یوں کہ پچھتائے بہت ہیں

    ہوا کچھ یوں کہ پچھتائے بہت ہیں تمہیں سوچا شرمائے بہت ہیں جسے پھولوں کے تحفے ہم نے بھیجے اسی نے سنگ برسائے بہت ہیں جو سچ پوچھو تو اب کے یوں ہوا ہے تیرے غم سے بھی اکتائے بہت ہیں چبھے پاؤں میں کانٹے یاد آیا کہ ہم نے پیل ٹھکرائے بہت ہیں اور اب تو غم چھپانا آ گیا ہے کہ آنسو پی کے ...

    مزید پڑھیے

    اب ان کے پاس بھی باقی بچا کیا

    اب ان کے پاس بھی باقی بچا کیا میں مانگوں قاتلوں سے خوں بہا کیا تمہیں پچھتاوے کا ہے روگ کافی تمہیں دے کر کروں میں بد دعا کیا مجھے یوں کر کے موجوں کے حوالے سکوں سے سو سکے گا ناخدا کیا نگہ کا اٹھنا تھا رازوں کا کھلنا مری آنکھوں میں تو نے لکھ دیا کیا میرے بالوں سے کلیاں نوچ لیں ...

    مزید پڑھیے

    کس کی آرزو تھے ہم کس نے بے اماں چھوڑا

    کس کی آرزو تھے ہم کس نے بے اماں چھوڑا چھوڑو بیتی باتوں کو کس نے کیوں کہاں چھوڑا پیچھے پیچھے ہو لیتے جا کے ہم منا لیتے وہ تو یوں گیا کوئی نام نہ نشاں چھوڑا منہ چھپاتے پھرتے ہیں آپ اپنے دامن میں اس نے اس طرح چھوڑا کہ پھر کہیں کا نہ چھوڑا بات بات پر ہم کو جان چھوڑو کہتے ہو دعویٰ ہے ...

    مزید پڑھیے

    گلستاں ویران دیکھا

    گلستاں ویران دیکھا دشت پر امکان دیکھا جب بھی جھانکا شہر دل میں یہ نگر سنسان دیکھا اس کو پا کر یوں لگا ہے اک کھرا انسان دیکھا کھنکھناہٹ کی دھنوں پر ناچتا ایمان دیکھا پھونک کر تحریر اس کی پہروں آتش دان دیکھا تھا وہی دل کا غنی جو بے سر و سامان دیکھا

    مزید پڑھیے

    تم نے سیکھا ہے اگر صرف حکومت کرنا

    تم نے سیکھا ہے اگر صرف حکومت کرنا یاد رکھنا ہمیں آتا ہے بغاوت کرنا دونوں میدانوں میں اپنا نہیں ثانی کوئی ہم سے تم سوچ کے نفرت یا محبت کرنا خود سکھائے تھے جسے ہم نے یہ الفت آداب اب یہ لازم ہے کھلے اس پہ عداوت کرنا خود بخود لوگ بٹھائیں گے تمہیں پلکوں پر پہلے خود سیکھ تو لو اوروں ...

    مزید پڑھیے

    رحمت بن کے اتری تھی کیوں زحمت بن گئی بیٹی

    رحمت بن کے اتری تھی کیوں زحمت بن گئی بیٹی میرا جرم گنہ بتلا دو پوچھتی رہ گئی بیٹی بڑھتی ہوئی تکرار جہیز کی اور غربت کا بوجھ اپنے آپ کو آگ لگا کے پھر اک مر گئی بیٹی باغی نا فرمان بنی اور کبھی کلنک کا ٹیکہ حق کی خاطر جب بھی کسی اصول پہ اڑ گئی بیٹی یہ لڑکی کمزور سی لڑکی مریم بھی ہے ...

    مزید پڑھیے

    بظاہر تو پرایا بھی نہیں ہے

    بظاہر تو پرایا بھی نہیں ہے وہ اپنا ہو کے بھی اپنا نہیں ہے مرے لب سے ہنسی چھینی تھی جس نے سنا ہے وہ بھی اب ہنستا نہیں ہے مری آوارگی پہ راستوں نے مجھے پوچھا کوئی تیرا نہیں ہے زمانہ منتظر ہے اس لہو کا جو میری آنکھ سے ٹپکا نہیں ہے مجھے تو خوف اپنے آپ سے ہے کسی سے ڈر مجھے لگتا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    رنگ نکھرتے پھول بکھرتے جائیں گے

    رنگ نکھرتے پھول بکھرتے جائیں گے جانے والے اک دن لوٹ کے آئیں گے جھوٹی سچی باتیں ان کی مت سننا پیار کے دشمن لوگ تمہیں بہکائیں گے تیرے بعد جدائیاں کیسے کاٹی ہیں اک اک لمحہ اک اک پل دہرائیں گے ہوش خرد اور عقل و خرد کے معنی اب دیوانے فرزانوں کو سمجھائیں گے امڈ رہی ہے یادوں کی ...

    مزید پڑھیے