Saleem-ur-Rahman

سلیم الرحمن

سلیم الرحمن کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    ہو گیا سنسان سارا شہر ہر گھر سو گیا

    ہو گیا سنسان سارا شہر ہر گھر سو گیا میری آنکھیں جاگتی ہیں سارا منظر سو گیا پھر وہ شہر اجنبی تنہائیوں کی سرد رات اوڑھ کر یادوں کی وہ میلی سی چادر سو گیا رات دن کے درمیاں گزری ہے ایسے زندگی ایک منظر جاگتا تھا ایک منظر سو گیا کشتیاں ساحل پہ لہروں کو ترستی رہ گئیں اور زمیں کی گود ...

    مزید پڑھیے

    شاخ سے ٹوٹ کر اڑا تنہا

    شاخ سے ٹوٹ کر اڑا تنہا زرد پتا تھا رہ گیا تنہا پھر رہی ہے اداس گلیوں میں بال کھولے ہوئے ہوا تنہا شہر کی رونقوں میں دن گزرا شب کو گھر کون جائے گا تنہا ہر گھڑی جنگ جینے مرنے کی ہر کوئی زور آزما تنہا وقت کی رت ہے صاف اور بے نقش چاند صحراؤں میں اگا تنہا وقت اور فاصلے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خواب دیکھے ہیں عمر بھر کیا کیا

    خواب دیکھے ہیں عمر بھر کیا کیا ہم نے تنہا کیے سفر کیا کیا ایک تیرا ہی سامنا نہ ہوا شہر دیکھے پھرے نگر کیا کیا جس جگہ پیڑ تھے پرندے تھے بد نما بن گئے ہیں گھر کیا کیا ہم وہیں ہیں چلے جہاں سے تھے رائیگاں ہو گئے سفر کیا کیا موت سے پہلے لوگ مرتے ہیں زندگی نے دیے ہیں ڈر کیا کیا

    مزید پڑھیے

    کیسے گزرے ہیں ماہ و سال تو دیکھ

    کیسے گزرے ہیں ماہ و سال تو دیکھ آ مرے غم کے خد و خال تو دیکھ میں ترا درد پہنے پھرتا ہوں جشن کے روز میرا حال تو دیکھ دامن تار تار پھرتا ہے حلیۂ یوسف جمال تو دیکھ خود کو پہچان لے کبھی شاید اس کو جی سے ذرا نکال تو دیکھ رت بدلنے میں کوئی دیر نہیں شام کے بادلوں کی چال تو دیکھ

    مزید پڑھیے

    ہر پھول کسی رنگ کا خوشبو کا سفر ہے

    ہر پھول کسی رنگ کا خوشبو کا سفر ہے اور باغ جہاں وقت کی اک راہ گزر ہے وادی سے گزرتا ہے مرے خواب کا دریا کھلتا سا لب آب ترے لطف کا در ہے مدت سے مرے دل پہ ہے بے رنگ سا موسم ہے دھوپ ٹھٹھرتی ہوئی بے سایہ شجر ہے سویا ہوا ہر درد میں امید کا پل ہے ہر رات کی دیوار پہ اک نقش سحر ہے اک بار ...

    مزید پڑھیے

تمام

18 نظم (Nazm)

    پا بہ گل

    اک بھکاری کی مانند اک پیڑ ویران سے راستے پر کھڑا ہے کوئی بھولا بھٹکا مسافر جو گزرے کبھی ایک پل کو رکے نرم چھانو میں دم لے ذرا اور چلتا بنے رہ گزر پر وہ بے آسرا پیڑ چپ چاپ تکتا رہے اپنے دامن کو پھیلائے ہر جانے والے مسافر کو شاخیں پکاریں مگر کون آئے

    مزید پڑھیے

    آوارہ

    کوئی یاد ایسی نہیں جو مجھے راہ چلتے ہوئے روک لے میرا دامن پکڑے مرے پاؤں میں ایک زنجیر سی ڈال دے کوئی بھی ایسا بیتا ہوا پل نہیں مست جھونکے کے مانند جو گنگناتا ہوا دور سے آئے ویران آنکھوں سے لپٹے کسی بھولی بسری ہوئی بات کا گیت گائے مرے سامنے ایک پھیلا ہوا جال ہے راستوں کا قطاریں ...

    مزید پڑھیے

    ایک لڑکی

    من کی چھوٹی سی دنیا میں آشاؤں کا ایک میلا سا ہے اس کی نس نس میں اک آگ سی کروٹیں لے رہی ہے خیالوں میں سپنے سنہرے بسے ہیں ذرا کوئی اس سے پر اتنا تو کہہ دے کہ اے شوخ لڑکی تیرے بالوں میں گجرے کی خوشبو بڑی مست میٹھی سی ہے تیرے ہونٹوں پہ امرت کی دھاریں ہیں تو اپنی آنکھوں میں کاجل سجائے ...

    مزید پڑھیے

    شہر اور زنجیر

    درد کی رات پھر آ گئی میرے پاؤں کی زنجیر پھر جانے مجھ کو کہاں لے چلے گی کبھی شہر کی نیم روشن سی ویران گلیاں خمیدہ سی دیوار کے سائے سائے میں پاؤں میں کنکر چبھوتا چلوں گا کبھی چوڑی چکی سی بل کھاتی سڑکوں کی ہنستی ہوئی رونقوں میں سلگتی ہوئی خوشبوؤں کی جنوں خیز لہروں کے ریلے میں بے بس ...

    مزید پڑھیے

    گیا سال

    گیا سال جاتے ہوئے میری دہلیز پر راکھ کا ڈھیر جھلسے ہوئے جسم ٹوٹے ہوئے عضو ستمبر کی بربادیوں پہ لکھے مرثیوں اور اخبار کی سرخیوں میں تراشوں میں لپٹی ہوئی زرد معصوم لاشیں ٹھٹھرتے ہوئے سرد سورج کی پہلی کرن میں بندھی ورلڈ آرڈر کی مٹتی ہوئی دستاویزوں کے انبار کو چھوڑ کر جا چکا ہے

    مزید پڑھیے

تمام