ہر پھول کسی رنگ کا خوشبو کا سفر ہے
ہر پھول کسی رنگ کا خوشبو کا سفر ہے
اور باغ جہاں وقت کی اک راہ گزر ہے
وادی سے گزرتا ہے مرے خواب کا دریا
کھلتا سا لب آب ترے لطف کا در ہے
مدت سے مرے دل پہ ہے بے رنگ سا موسم
ہے دھوپ ٹھٹھرتی ہوئی بے سایہ شجر ہے
سویا ہوا ہر درد میں امید کا پل ہے
ہر رات کی دیوار پہ اک نقش سحر ہے
اک بار یہاں بویا گیا زہر زمیں میں
بد ذائقہ اب ہر نئے موسم کا ثمر ہے
جس شہر کو کہتے تھے کبھی شہر تمنا
گرتی ہوئی دیوار سے ٹوٹا ہوا در ہے