Saleem Shahid

سلیم شاہد

سلیم شاہد کی غزل

    منظر مری آنکھوں میں رہے دشت سفر کے

    منظر مری آنکھوں میں رہے دشت سفر کے کچھ ریت کے ٹیلے در و دیوار ہیں گھر کے لہروں پہ مرے پاؤں جمے ہیں کہ سفر میں ہے شرط ٹھہرنا کہ زمیں پاؤں سے سر کے تا عمر رہے جس کے لیے ذرۂ نا چیز دیکھے وہ کبھی کاش بلندی سے اتر کے پانی کے کئی رنگ دھنک میں ہیں کہ تو ہے تصویر میں آئی ہے تری شکل نکھر ...

    مزید پڑھیے

    وہ خوں بہا کہ شہر کا صدقہ اتر گیا

    وہ خوں بہا کہ شہر کا صدقہ اتر گیا اب مطمئن ہیں لوگ کہ دریا اتر گیا پھر جمع کر رہا ہوں پر کاہ سرگزشت حیران ہوں کہ ذہن سے کیا کیا اتر گیا آسیب راستے میں شجر روز و شب کے تھے جنگل کے پار میں تن تنہا اتر گیا غرقاب ہوکے سیکھی ہے گوہر شناوری پتھر نہ تھا کہ پانی میں گہرا اتر گیا مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    ہے آرزو کہ اپنا سراپا دکھائی دے

    ہے آرزو کہ اپنا سراپا دکھائی دے آئینہ دیکھتا ہوں کہ چہرہ دکھائی دے مصروف اس قدر تھے کہ ساون گزر گیا حسرت رہی کہ ابر برستا دکھائی دے خاموش ہوں کہ بولنا تہمت ہے اس جگہ جب دیکھنا نہیں ہے تو پھر کیا دکھائی دے سوچا تھا بس کہ ذہن میں تصویر بن گئی اب آنکھ کہہ رہی ہے کہ چہرہ دکھائی ...

    مزید پڑھیے

    ہوں میں بھی وہی میرا مقابل بھی وہی ہے

    ہوں میں بھی وہی میرا مقابل بھی وہی ہے پتھر بھی وہی آئینۂ دل بھی وہی ہے مجبور ہوں میں آب و ہوا ہے مری مختار جو لالہ و گل کی ہے مری گل بھی وہی ہے جیسے وہ کسی آئنہ خانہ میں مکیں ہو پیکر بھی وہی عکس وہی ظل بھی وہی ہے یہ خواب کا عالم ہے کہ لمحات ہیں ساکت میں اب بھی وہیں بیٹھا ہوں محفل ...

    مزید پڑھیے

    ظلمت ہے تو پھر شعلۂ شب گیر نکالو

    ظلمت ہے تو پھر شعلۂ شب گیر نکالو خورشید کوئی شب کا جگر چیر نکالو کٹتا ہے کبھی ناخن انگشت سے کہسار پتھر نہ کریدو کوئی تدبیر نکالو میں گل ہوں مجھے شاخ پہ کھلنا ہے بہ ہر طور تم خاک سے گل خیزی کی تاثیر نکالو تم روغن خوں برش شمشیر سے بھر کر جو چاہو مرے جسم سے تصویر نکالو جو ذہن میں ...

    مزید پڑھیے

    ان در و دیوار کی آنکھوں سے پٹی کھول کر

    ان در و دیوار کی آنکھوں سے پٹی کھول کر ڈوبتے سورج کا منظر دیکھ کھڑکی کھول کر اشک آنکھوں میں اگر کچھ ہیں تو کر شب کا سفر راستے میں آسماں بیٹھا ہے جھولی کھول کر اور کچھ تازہ لکیریں شکل کے خاکے پہ ہیں دیکھ اپنے ہاتھ کا آئینہ مٹھی کھول کر پیکر مفہوم بن کر بھی کبھی پہلو میں آ لفظ ...

    مزید پڑھیے

    کیا میرا اختیار زمان و مکان پر

    کیا میرا اختیار زمان و مکان پر پہرے بٹھا دیئے ہیں کسی شے نے دھان پر تجھ سے بچھڑ کے گھر کی طرف لوٹتے ہوئے کیوں بستیوں کا وہم ہوا ہر چٹان پر حسرت رہی کہ صورت آب رواں چلیں کب سے مثال سنگ پڑے ہیں ڈھلان پر تھی جن کی دسترس میں ہوا پا بہ گل ہوئے اے مشت خاک زعم کہاں کا اڑان پر ہاں آرزو ...

    مزید پڑھیے

    مردہ رگوں میں خون کی گرمی کہاں سے آئی

    مردہ رگوں میں خون کی گرمی کہاں سے آئی تھی شاخ سبز پھول میں سرخی کہاں سے آئی یہ عمر رائیگاں یہ سفر خواب میں کٹا پھر یہ تھکن یہ پاؤں پہ مٹی کہاں سے آئی دیوار خونچکاں نہ مرا زخم سر ہے سرخ یہ مصلحت بتا دل وحشی کہاں سے آئی میں صلح جو ہوا غلط الزام سے خفا اب پوچھتے ہو بات میں تلخی کہاں ...

    مزید پڑھیے

    مت پوچھ کہ اس پیکر خوش رنگ میں کیا ہے

    مت پوچھ کہ اس پیکر خوش رنگ میں کیا ہے اک ریت کا ٹیلہ پس دیوار قبا ہے یہ خلق عبارت ہے لب گویا کی محتاج دیکھیں تو فقط داغ ہے بولیں تو صدا ہے آتی ہے سسکنے کی دل دشت سے آواز شاید کہ رگ و پے میں کوئی آبلہ پا ہے ہے بوجھ تن خستہ کا دیوار نفس پر گویا کہ مرے گھر کا ستوں موج ہوا ہے کچھ وحشت ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کو سجدہ کیا خوں سے با وضو ہو کر

    زمیں کو سجدہ کیا خوں سے با وضو ہو کر میں رزم گاہ سے لوٹا ہوں سرخ رو ہو کر جہاں میں پھیل گئی دود شعلہ سے ظلمت فلک پہ بہہ گیا سورج لہو لہو ہو کر مجھے تھا دام اسیری نشیب دریا کا اچھل گیا میں کناروں سے تند خو ہو کر گریز پائی کو ہے گمرہی کا دشت بلا خط سفر تو چمکتا ہے آب جو ہو کر وہ لمس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4