قائل کروں کس بات سے میں تجھ کو ستم گر
قائل کروں کس بات سے میں تجھ کو ستم گر ڈھلوان پہ رکتا نہیں پانی ہو کہ پتھر سورج نکل آیا تو وہ موسم نہ رہے گا کچھ دیر کا مہماں ہے یہاں صبح کا منظر باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں بیٹھا ہوں میں گھر میں در دیوار پہن کر بے کار گیا گہرے سمندر میں اترنا لہریں مجھے پھر ڈال گئیں ریت کے ...