Saleem Shahid

سلیم شاہد

سلیم شاہد کی غزل

    قائل کروں کس بات سے میں تجھ کو ستم گر

    قائل کروں کس بات سے میں تجھ کو ستم گر ڈھلوان پہ رکتا نہیں پانی ہو کہ پتھر سورج نکل آیا تو وہ موسم نہ رہے گا کچھ دیر کا مہماں ہے یہاں صبح کا منظر باہر جو میں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں بیٹھا ہوں میں گھر میں در دیوار پہن کر بے کار گیا گہرے سمندر میں اترنا لہریں مجھے پھر ڈال گئیں ریت کے ...

    مزید پڑھیے

    موسم کا زہر داغ بنے کیوں لباس پر

    موسم کا زہر داغ بنے کیوں لباس پر یہ سوچ کر نہ بیٹھ سکا سبز گھاس پر مدت ہوئی کہ طائر جاں سرد ہو چکا اڑتے رہے ہواؤں میں کچھ بد حواس پر سورج کا پھول ابر کے پتوں میں گم رہا شب کے شجر کا سایہ رہا مجھ اداس پر وہ جا چکا ہے موڑ سے آنکھیں ہٹا بھی لے بیکار ہونٹ ثبت ہیں خالی گلاس پر کیسے ...

    مزید پڑھیے

    حرف بے مطلب کی میں نے کس قدر تفسیر کی

    حرف بے مطلب کی میں نے کس قدر تفسیر کی شکل پہچانی گئی پھر بھی نہ اس تصویر کی صبح کا دروازہ کھلتے ہی چلو گلشن کی سمت رنگ اڑ جائے گا پھولوں کا اگر تاخیر کی قید میرے جسم کے اندر کوئی وحشی نہ ہو سانس لیتا ہوں تو آتی ہے صدا زنجیر کی تیرے چہرے پر جو لکھا تھا مری آنکھوں میں ہے حفظ ہے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    سب تھکن آنکھ میں سمٹ جائے

    سب تھکن آنکھ میں سمٹ جائے نیند آ جائے رات کٹ جائے روبرو ہوں تو گفتگو بھی کریں کون آواز سے لپٹ جائے وہم یہ ہے کہ بند دروازہ دیکھ کر ہی نہ وہ پلٹ جائے سیکھ دریا سے کوہ پیمائی کوئی کیوں راستے سے ہٹ جائے کون مارے گا دوسرا پتھر کوئی صورت کہ درد بٹ جائے میں ہوا ہوں کہ چل رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    صبح سفر کا راز کسی پر یہاں نہ کھول

    صبح سفر کا راز کسی پر یہاں نہ کھول طوفاں ہے پانیوں میں ابھی بادباں نہ کھول پسماندگاں پہ چھوڑ کہ ڈھونڈیں نقوش پا جو سنگ و خشت ہیں تہہ آب رواں نہ کھول میں نے سراب فہم کے سب راز پا لئے اب لاکھ مجھ پہ عقدۂ ہفت آسماں نہ کھول سب کچھ یہاں ہے چشم خریدار کی پسند عذر متاع درد اگر ہے دکاں ...

    مزید پڑھیے

    کھلتی ہے گفتگو سے گرہ پیچ و تاب کی

    کھلتی ہے گفتگو سے گرہ پیچ و تاب کی پر کس سے کھل کے بات کریں اضطراب کی کافی نہیں ہے چشم تماشا کو رنگ گل لائیں کہاں سے زخم میں خوشبو گلاب کی اپنی برہنگی کو بچا تیز دھوپ سے کرنوں میں بو ہے جلتے ہوئے آفتاب کی کچھ میں شجر سے ٹوٹ کے بے خانماں ہوا ہاں کچھ ہوا نے بھی مری مٹی خراب کی اک ...

    مزید پڑھیے

    دل بھر آئے اور ابر دیدہ میں پانی نہ ہو

    دل بھر آئے اور ابر دیدہ میں پانی نہ ہو یہ زمیں صحرا دکھائی دے جو بارانی نہ ہو شوق اتنا سہل کیوں اس پار لے جائے مجھے پھر پلٹ آؤں اگر دریا میں طغیانی نہ ہو کان بجتے ہیں ہوا کی سیٹیوں پر رات بھر چونک اٹھتا ہوں کہ آہٹ جانی پہچانی نہ ہو ہو گئے بے خود تو ٹیسوں کا مزہ چھن جائے گا روکتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4