وہ خوں بہا کہ شہر کا صدقہ اتر گیا
وہ خوں بہا کہ شہر کا صدقہ اتر گیا
اب مطمئن ہیں لوگ کہ دریا اتر گیا
پھر جمع کر رہا ہوں پر کاہ سرگزشت
حیران ہوں کہ ذہن سے کیا کیا اتر گیا
آسیب راستے میں شجر روز و شب کے تھے
جنگل کے پار میں تن تنہا اتر گیا
غرقاب ہوکے سیکھی ہے گوہر شناوری
پتھر نہ تھا کہ پانی میں گہرا اتر گیا
مجھ کو تو بے مزہ لگا پانی کا ذائقہ
وہ کون تھا جو دشت میں پیاسا اتر گیا
ہاں ہار مان لی تری یادوں کے روبرو
اس بار کفر سنگ میں تیشہ اتر گیا
لے آئیں کس فراز پہ لفظوں کی سیڑھیاں
کاغذ پہ ہو بہ ہو وہ سراپا اتر گیا
آہٹ علاج ہے دل وحشت پسند کا
رکھا نمک زباں پہ کہ نشہ اتر گیا
شاہدؔ تلاش رزق ہے طائر کی جستجو
پانی مجھے جہاں نظر آیا اتر گیا