مت پوچھ کہ اس پیکر خوش رنگ میں کیا ہے

مت پوچھ کہ اس پیکر خوش رنگ میں کیا ہے
اک ریت کا ٹیلہ پس دیوار قبا ہے


یہ خلق عبارت ہے لب گویا کی محتاج
دیکھیں تو فقط داغ ہے بولیں تو صدا ہے


آتی ہے سسکنے کی دل دشت سے آواز
شاید کہ رگ و پے میں کوئی آبلہ پا ہے


ہے بوجھ تن خستہ کا دیوار نفس پر
گویا کہ مرے گھر کا ستوں موج ہوا ہے


کچھ وحشت اظہار لہو شاخ پہ لائی
کچھ راس گل زخم کو یہ آب و ہوا ہے


اب اور کوئی نطق و زباں ہوں تو کہوں کچھ
اس خانۂ در بند میں کیا حشر بپا ہے


اب عجز سفر کی بھی ملامت ہے مرے سر
ہر راہ مرے سامنے آغوش کشا ہے


پھر تیرگیٔ شب میں نظر آئی نئی شکل
اب دیکھ کہ کس خواب کا در آنکھ پہ وا ہے


ٹکرا کے سیاہی سے پلٹ جاتی ہے صورت
شاہدؔ دل آئینہ میں دیوار سی کیا ہے