Saleem Shahid

سلیم شاہد

سلیم شاہد کی غزل

    طرز اظہار میں کوئی تو نیا پن ہوتا

    طرز اظہار میں کوئی تو نیا پن ہوتا درد رنگین بدن شیشے کا برتن ہوتا کس لیے روز بدلتا ہوں میں ملبوس نیا ایسا کچا تو نہ اس نقش کا روغن ہوتا پیر کمرے سے نکالے تو میں بازار میں تھا ہے یہ حسرت کہ مرے گھر کا بھی آنگن ہوتا آنچ مل جاتی جو کچھ اور تو جوہر کھلتے تم جسے راکھ سمجھتے ہو وہ کندن ...

    مزید پڑھیے

    جرأت اظہار کا عقدہ یہاں کیسے کھلے

    جرأت اظہار کا عقدہ یہاں کیسے کھلے مصلحت کا بیم دل میں ہے زباں کیسے کھلے بے دلی سے ہے رگ و پے میں لہو ٹھہرا ہوا آنکھ میں پوشیدہ زخموں کا نشاں کیسے کھلے دام ساحل ہے سفینے کی اسیری کا سبب سر پٹکتا ہوں کہ اب یہ بادباں کیسے کھلے حرف مبہم کی طرح اوراق روز و شب میں ہوں راز آخر دشمنوں ...

    مزید پڑھیے

    روشن سکوت سب اسی شعلہ بیاں سے ہے

    روشن سکوت سب اسی شعلہ بیاں سے ہے اس خامشی میں دل کی توقع زباں سے ہے خاشاک ہیں وہ برگ جو ٹوٹے شجر سے ہوں ہم سے مسافروں کا بھرم کارواں سے ہے احساس گمرہی سے مسافت ہے جی کا روگ اب کے تھکن مجھے سفر رائیگاں سے ہے یا آ کے رک گئی ہے خط تیرگی پہ آنکھ ہے روشنی تو ٹوٹی ہوئی درمیاں سے ہے جب ...

    مزید پڑھیے

    ابر سرکا چاند کی چہرہ نمائی ہو گئی

    ابر سرکا چاند کی چہرہ نمائی ہو گئی اک جھلک دیکھا اسے اور آشنائی ہو گئی سو گیا تو خواب اپنے گھر میں لے آئے مجھے جیسے میری وقت سے پہلے رہائی ہو گئی میرے کمرے میں کوئی تصویر پہلے تو نہ تھی اس کو دیکھا سادے کاغذ پر چھپائی ہو گئی میں کھلی چھت سے اتر آیا بھرے بازار میں سامنے کھڑکی کی ...

    مزید پڑھیے

    یہ فیصلہ بھی مرے دست با کمال میں تھا

    یہ فیصلہ بھی مرے دست با کمال میں تھا جو چھیننے میں مزہ ہے وہ کب سوال میں تھا کس آفتاب کی آہٹ سے شہر جاگ اٹھا وگرنہ میں بھی کہیں مست اپنے حال میں تھا ترے بیاں نے دکھایا جو آئنہ تو کھلا کہ ہر شعور مرے گوشۂ خیال میں تھا مرے سفر کے لیے روز و شب بنے ہی نہیں تمہیں کہو کہ میں کب قید ماہ ...

    مزید پڑھیے

    مری تھکن مرے قصد سفر سے ظاہر ہے

    مری تھکن مرے قصد سفر سے ظاہر ہے اداس شام کا منظر سحر سے ظاہر ہے نہ کوئی شاخ عبارت نہ کوئی لفظ کا پھول یہ عہد بانجھ ہے قحط ہنر سے ظاہر ہے جو پوچھا کیا ہوئیں شاخیں ثمر بدست جو تھیں کہا کہ دیکھ لو سب کچھ شجر سے ظاہر ہے فقط یہ وحشت اظہار ہے علاج نہیں یہ بوجھ یوں نہیں اترے گا سر سے ...

    مزید پڑھیے

    مت پوچھ حرف درد کی تفسیر کچھ بھی ہو

    مت پوچھ حرف درد کی تفسیر کچھ بھی ہو وہ خواب لا جواب تھا تعبیر کچھ بھی ہو ہر نقش کو مٹا کے گزرتی رہی ہوا لوح جہاں پہ وقت کی تحریر کچھ بھی ہو بہتر نہیں کہ تجھ کو ملے کاغذی لباس رنگوں کا امتزاج ہے تصویر کچھ بھی ہو جب حکم ہو گیا ہے کہ نالہ بہ لب رہیں پھر وہم کیا ہے زہر کی تاثیر کچھ ...

    مزید پڑھیے

    راستہ چاہئے دریا کی فراوانی کو

    راستہ چاہئے دریا کی فراوانی کو ہے اگر زعم تو لے روک لے طغیانی کو آئنہ ٹوٹ گیا شکل کے ذرے بکھرے کیا چھپاتا ہے اب اس دشت کی ویرانی کو آب یاری جو ہوئی ہے تو شجر بھی ہوں گے تو نے سمجھا تھا غلط خون کی ارزانی کو لے یہ طوفاں تری دہلیز تک آ پہنچا ہے برف سمجھا تھا اسی ٹھہرے ہوئے پانی ...

    مزید پڑھیے

    درد کی خوشبو سے سارا گھر معطر ہو گیا

    درد کی خوشبو سے سارا گھر معطر ہو گیا زخم کھا کھا کر بدن پھولوں کا پیکر ہو گیا مائل پرواز ہر لحظہ ہے مرغ جستجو میں جو سیڑھی پر چڑھا وہ اور اوپر ہو گیا گوہر امید لائیں کس اتھاہ میں ڈوب کر ہم جو غوطہ زن ہوئے گہرا سمندر ہو گیا ترچھے سورج کی شعاعیں دے گئیں اک ہم سفر میرا سایہ ہی مرے ...

    مزید پڑھیے

    فرش زمیں پہ برگ خزانی کا رنگ ہے

    فرش زمیں پہ برگ خزانی کا رنگ ہے دیوار و در پہ نقل مکانی کا رنگ ہے آنکھوں میں تیرتے ہیں سفینے وداع کے لہجے میں آب جو کی روانی کا رنگ ہے افراط چشم و لب کی کہیں سیڑھیوں میں تھی لیکن چھتوں پہ قحط و گرانی کا رنگ ہے گالوں پہ اک لکیر سی سیلاب اشک سے دیوار پر کہیں کہیں پانی کا رنگ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4